کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 95
عالمی لباس ہر قوم کا مخصوص لباس اس کی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے، لباس ہی سے قوموں کی تاریخ اُجاگر ہوتی ہے او ران کے رہن سہن کا پتہ چلتا ہے، یہ تمدن کی روح اور تہذیب کی بنیاد ہے۔ زبان و ادب کو تمدن میں جو مقام حاصل ہے، وہی مقام لباس کو بھی حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ زبانوں میں جس قدر تنوع پایا جاتا ہے ، کم وبیش اتنا ہی تنوع لباس میں بھی پایا جاتا ہے۔ثقافتی انسائیکلو پیڈیا کےاوراق و صفحات، مختلف قوموں کے لباس اور پوشاک پر روشنی ڈالتے ہیں اور ہر قوم کے مخصوص لباس کی نشان دہی کرتے ہیں ، کیونکہ لباس ہی دراصل کسی بھی قوم کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ گلوبلائزیشن کے سیل رواں نے جہاں سیاسی جغرافیے میں تبدیلی کی، اقتصادی صور ت حال کو بدلا، پوری دنیا میں امریکی ثقافت کو پھیلایا، وہیں امریکی لباس کو بھی عام کیا اور قومی لباس کا خاتمہ کردیا، ’ہالی وڈ‘ کی فلموں کا اثر یہ ہوا کہ امریکی لباس پہننا ترقی کا شعار بن گیا اوربلندمعیارِ زندگی کی علامت قرار پایا، جبکہ قومی لباس پہننا دقیانوسی او ر پستی کی دلیل سمجھا گیا۔ یورپ بھی قدیم زمانے میں مال دار ثقافت کا مالک رہا ہے اسی وجہ سے یورپی اقوام کے بھی مخصوص لباس ہوا کرتے تھے ، لیکن اُنیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکی تجارتی کمپنیوں نے یورپ میں قدم رکھا تو تدریجی طور پر قومی لباس کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی گئی، پہلی جنگِ عظیم کے بعد مقبولیت کے تناسب میں مزید کمی آئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب آزادانہ عالمی تجارت کا باضابطہ آغاز ہوا اور صنعتی میدانوں میں امریکی اجارہ داری قائم ہوئی تو یورپی اقوام کے قومی ورثے کا بالکل خاتمہ ہوگیا ، امریکی لباس ، جینز اور ٹی شرٹ وغیرہ ہی کو لوگوں نے اپنا لیا او ریوں امریکی لباس مغربی لباس کہلانے لگا۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک یہی لباس عام ہوگیا حتیٰ کہ اسکول میں لڑکے لڑکیاں اسی لباس میں نظر آتے ہیں ، جسے اقوامِ عالم اورنئی نسل پر ٹی وی اور فلموں کے ذریعہ مسلط کردیا گیا۔نوجوان نسل کی یہ خواہش رہتی ہے کہ کسی طرح کیلی فورنیا کی شرٹ اور امریکی صوبے ٹکساس کےہیٹ اسے حاصل ہوجائیں اور وہ بھی ٹکساس کے چرواہوں کی طرح نظر آئے، اس کے جسم پر بھی بیس بال اور باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی طرح کا لباس ہو، اس کے