کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 94
ہے۔ حال ہی میں امریکی فلمیں تقسیم کرنے والے ایک ادارے AMC نے اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ ہر ملک میں ایسے کمپلیکس تعمیر کرے گا جن میں سے ہر ایک میں کم از کم 20 سنیما گھر ہوں گے۔ اس ادارے کے نمایندوں نے فرانس کی ’اونیفرنس‘ کمپنی کے ساتھ پیرس میں ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں ۔ نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے فرانسیسی فلموں کی حوصلہ افزائی ہوگی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے فرانسیسی بازاروں میں امریکی فلموں کو مزید آزادی حاصل ہوگی اور اپنی ثقافت کو فروغ دینے کا موقع ہاتھ آئے گا۔
یورپ کے ایک دوسرے ملک سوئٹز لینڈ میں بھی کچھ یہی صورتِ حال ہے، جہاں سنیما گھروں میں روزانہ 10 فلمیں دکھلائی جاتی ہیں ، جن میں 9 امریکی فلمیں ہوتی ہیں ، جب کہ دسویں فلم بھی ضروری نہیں کہ یورپ یا خود سوئٹزر لینڈ کی بنی ہوئی ہو۔ پولینڈ میں صرف ایک فی صد سينما گھروں میں مقامی فلمیں دکھلائی جاتی ہیں ، جب کہ باقی سنیما گھر امریکی فلموں کے لیے مخصوص ہیں ، ہنگری میں 3 فیصد سنیما گھر مقامی فلموں کے لیے اور 97 فیصد سنیما گھر امریکی فلموں کے لیے خاص ہیں ۔
امریکی ثقافت کو فروغ دینے کا کام کتنے منظّم انداز سے چل رہا ہے، اس کا اندازا یوں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی 6 بڑی کمپنیاں جو عالمی بازار پر حاوی ہیں ، جب کسی ملک کے ساتھ کوئی بڑا سودا کرتی ہیں تو ساتھ ہی ان کی یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے یہاں اُن امریکی فلموں کو آزادی کے ساتھ دکھائے جانے کی اجازت دیں جوکسی وجہ سے امریکہ اور یورپ میں نہیں چل سکیں اور پٹ گئیں ۔ [1]
امریکی فلموں کی عالمی سطح پر تشہیر کی وجہ سے آج کوئی ملک باقی نہیں بچا، جہاں امریکی ثقافت اور تمدن نے اپنے پنجے نہ گاڑدیے ہوں ، نوجوان نسل سب سے زیادہ اس سیلاب سے متاثر ہوئی۔ ہر ملک میں نوجوانوں کی اکثریت نے اپنی ملکی اور قومی تہذیب سے رُخ موڑ لیا اور امریکی تہذیب کی دل دادہ بن گئی۔ یہی عالمگیریت کا مقصد بھی ہے کہ قومی تہذیبوں اور ثقافتوں کا خاتمہ کردیا جائے او رامریکی تہذیب کوپوری دنیا میں رائج کردیا جائے۔
[1] أمریکه المستبدة: ص115 و ص120