کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 93
آگیا، فرانس خود بھی’فلم سازی‘ کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا اور اس کی فلمی صنعت اٹلی اور جرمنی سے زیادہ بہتر تھی۔ لیکن اس کے باوجود فرانسیسی ٹی وی پر 70 سے 80 فیصد امریکی فلمیں دکھلائی جانے لگیں ، سنیما گھروں میں امریکی فلموں کا قبضہ ہوگیا، حتیٰ کہ یورپ میں فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والی پانچ سب سے بڑی کمپنیاں بھی امریکیوں ہی کے زیر اثر آگئیں ۔ اس فلمی سیلاب کا اثریہ ہوا کہ فرانسیسی تہذیب نے امریکی تمدن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے،فرانسیسی قوم کے باشعور قائدین کی بدولت وہاں کی زبان تو محفوظ رہ گئی، لیکن فرانس اپنی زبان کے علاوہ کچھ نہ بچا سکا۔ ’ہالی وڈ‘نے تو امریکی ثقافت کی نشرواشاعت دنیا کے گوشے گوشے میں کی ، لیکن امریکہ نے غیر ملکی فلموں کے لیے ایسی پالیسی وضع کردی کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے ملک کی ثقافت امریکہ میں رائج نہ کرسکیں ۔ چنانچہ 1992ء میں امریکی ٹی وی چینلوں پر 492/امریکی فلمیں دکھلائی گئیں جبکہ کل 27 غیر ملکی فلمیں ہی امریکی سنیما گھروں میں دکھلائی جاسکیں ، اعداد و شمار کے مطابق 1983ء میں پوری دنیا کے سنیما گھروں میں صرف امریکی فلمیں دیکھنے کے لیے 35 فیصد ٹکٹ فروخت ہوئے، یہ تناسب 1993ء میں 57 فیصد تک پہنچ گیا، جبکہ اسی سال صرف یورپ میں امریکی فلموں کے لیے ٹکٹ فروخت ہونےکا تناسب 71 فیصد رہا، جو 1996ء میں 80 فیصد ہوگیا، اس کے مقابلے میں امریکہ میں یورپی فلموں کا تناسب ایک سے تین فیصد تک ہی رہا، ان اعداد و شمار سے اندازا ہوتا ہے کہ امریکہ اپنی ثقافت کو پوری دنیا میں رواج دینے اور دیگر ملکوں کی تہذیب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں کتنا حساس ہے، ان منصوبوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امریکی ثقافت جو عالمگیر ہونے کے لیے سالہا سال پہلے منتخب ہوچکی ہے، نہایت برق رفتاری سے مشرق و مغرب کی مسافتیں طے کررہی ہے اور جغرافیائی و قومی حدود سے بے پرواہ ہوکر ہر ملک کے ہر طبقے کو اپنی سحر طرازیوں کا اسیر بنا رہی ہے۔ امریکی فلمی صنعت کے اس سیلاب کا اثر ہر ملک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جرمنی ان یورپی ممالک میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنی زبان کے سلسلے میں بہت حساس ہیں ، لیکن اس کے باوجود جرمنی کی فلمی صنعت پر85 فیصد امریکی سینما کا غلبہ ہے۔ ’برلن‘کے بڑے بڑے ’اسٹوڈیوز‘ میں امریکی فلمیں بنائی جارہی ہیں اور عالمی سطح پر ان فلموں کی تشہیر کے ذریعے امریکی ثقافت کو فروغ دیا جارہا