کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 92
طور پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی جارہی باتوں کو بسر و چشم قبول کرلیتے ہیں ، مشہور امریکی نیوز چینل CNNکے ایڈیٹر کا کہنا ہے : ’’جب ناظرین ٹی وی اسکرین کے ایک کونے میں LIVE (براہ راست) لکھا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ تھوڑی دیر کے لیےچینل بدلنا روک دیتے او رغور سے ہمارے چینل پر پیش کی جانے والی رپورٹ دیکھنے لگتے ہیں ، قبل اس کے کہ ان میں سستی در آئے ہم دوسری براہِ راست رپورٹ پیش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ٹی وی چینلوں کے اس عمل سے ٹی وی دیکھنے والا شخص ان کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے اور ان کی جانب سے پیش کردہ بات کوتدریجاً قبول کرنے لگتا ہے۔‘‘[1] امریکی فلمیں : امریکی ثقافت کا نقیب’ہالی وڈ‘ سنیما کا آغاز اگرچہ یورپ میں ہوا او رامریکہ نے اپنے آپ کو اس کا مُوجد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن جب سنیما نے ترقی کی او رحرکت کرتی ہوئی تصویروں سے آوازبھی آنے لگی تو امریکیوں نے بڑے بڑے یورپی فن کاروں کو اپنے یہاں مدعو کیا اور اُن کے ذریعے فلمیں بنائیں ، پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیان بنائی جانے والی جن فلموں نے شہرت پائی، ان میں 80 فیصد امریکی فلم نگری ’ہالی وڈ‘ کی بنائی ہوئی تھیں ، جن میں یورپی فن کاروں نے کام کیا تھا۔ ان فلموں کی شہرت او ران کے اثرات سے امریکیوں کو اندازا ہوگیا کہ عقلوں کو سحر زدہ کرنے اور امریکی طرزِ زندگی کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے ’فلم‘ ایک مؤثر ہتھیار ہے، چنانچہ اُنہوں نے اپنے ثقافت اور تمدن کو فروغ دینے او ر اپنی اقدار و روایات کو رواج دینے کے لیے ’فلموں ‘ کا سہارا لیا اور جس طرح صنعت و تجارت کے میدان میں اپنی بالادستی اوراجارہ داری قائم کی، اسی طرح فلموں کے میدان میں بھی غلبہ حاصل کیا، مختلف معاہدوں اورحیلوں کی آڑ لے کر امریکی فلموں کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا۔ چنانچہ 1947ء میں اس وقت کے فرانسیسی صدر لیون بلوم سے خصوصی مالی امداد کے بدلے امریکی سنیما کو مراعات دینے کا مطالبہ کیا گیا، فرانسیسی صدر نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا، جس کی بنا پر فرانس میں امریکی فلموں کا سیلاب
[1] أمریکه المستبدة: ص112 و ص122