کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 91
گئی۔جبکہ ’بلاک بسٹر انٹرٹینمنٹ‘، جو مشہو رموسیقی چینل MTVکے ساتھ مربوط ہے اور پوری دنیا میں 230 ملین افراد کو اپنے پروگرام دکھاتا ہے، دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح ’ہاکرز‘ نامی ایک مواصلاتی کمپنی ’ڈائرکٹ ٹی وی‘ (Direct TV) کے نام سے ایک سٹیلائٹ نظام کا تجربہ کرنے جارہی ہے جس کے ذریعے وہ ڈیڑھ سو سے زائد چینل پوری دنیا میں نشر کرسکے، دوسری طرف مشہور عالمی کمپنی At&T(اے ٹی اینڈ ٹی) ’سلیکان گرافکس‘ (Silicon Graphics) اور’ٹائم وارنر‘ کے نمایندوں پر مشتمل ایک گروپ ایسا نیٹ ورک تیار کررہا ہے جن پر پوری دنیا میں کہیں بھی ہمہ وقت 500 سے زائد امریکی فلمیں دستیاب ہوسکیں گی۔ مذکورہ بالا کمپنیاں عالمی مواصلاتی نظام کو امریکہ کے زیر نگیں کرنےکے لیے اس کی پوری طرح معاونت کررہی ہیں ، موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ خفیہ اور غیراعلانیہ جنگ اپنے اختتام پر ہے اور اس جنگ میں بھی دیگر جنگوں کی طرح فتح کا سہرا امریکہ ہی کے سر ہے۔ ’پروپیگنڈا‘ ایک مؤثر ہتھیار ’فرانسوبرون‘ کا کہنا ہے کہ ’’پروپیگنڈا، ذہین لوگوں پر احمقانہ تاثرات ڈالنے کا نام ہے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے، جسے امریکیوں نے اگرچہ ایجاد نہیں کیا، لیکن ایک مؤثر ہتھیار کی شکل ضرور دی ہے۔ اس کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا، بلکہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھا۔ امریکیوں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ’’انہی کی بدولت یورپ ، نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے۔‘‘یہ پروپیگنڈا اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکہ ان کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں ہے۔ اس وقت سے لے کر آج تک ذرائع ابلاغ اس مؤثر ہتھیار کو کسی نہ کسی شکل میں مستقل استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ ان سطور کا مقصد صرف یہ بتلانا ہے کہ آج امریکی میڈیا، اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے، لے جاسکتا ہے ،لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری