کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 9
موجو دتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا :کیا آپ کے ساتھ کسی دوسرےصحابی کو بھی اس حدیث کا علم ہے تو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تائید کی، تب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس عورت کےلیےچھٹا حصہ دینے کا فیصلہ کردیا۔‘‘[1] منکرین حدیث یہاں یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نےایک آدمی کی خبر پر اعتبار نہیں کیا بلکہ جب دوسرے صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تائید کی تب اسےقبول کیا ہے۔ ایسے لوگ حقیقت سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں یا اپنے قارئین کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ مقامِ غور ہےکہ دوسرے آدمی کی گواہی او راس کی تائید سے بھی وہ حدیث خبر واحد ہی رہتی ہے،سنّت ِمتواترہ نہیں بن جاتی، کیونکہ خبر واحد کی تعریف ہی یہ ہے: هو ما لم یجمع شروط المتواتر[2]یعنی ’’ جس حدیث میں متواتر کی شرطیں نہ پائی جائیں وہ خبر واحد ہوگی‘‘ اور اس کے حجّت ہونے پر امت کا اتفاق ہے۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں : "وعلىٰ العمل بخبر الواحد کان کافة التابعین و من بعدهم من الفقهاء"[3] ’’ تمام تابعین رحمۃ اللہ علیہم کرام اور تمام فقہاے عظام خبر واحد پر عمل کرتے رہے ہیں ۔‘‘ دورِ فاروقی رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی خبرواحد کو حجّت سمجھتے اور اسے قبول فرمایا کرتے تھے اور جب کسی مسئلہ میں اُنہیں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ جاتی تھی تو اُس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے تھے۔ جیسا کہ کتبِ احادیث میں وارد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : أن عمر خرج إلى الشأم فلما كان بسرغ بلغه أن الوباء قد وقع بالشام فأخبره عبد الرحمٰن بن عوف أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا
[1] سنن ترمذی: 2100 [2] نزہۃ النظر: 33 [3] الکفایۃ فی علم الروایۃ :26 تا 31