کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 89
فراہم کرتی ہے، لیکن خود اس ایجنسی کا حال یہ ہے کہ اس کی اکثر خبریں ، امریکی خبررساں اداروں سے ماخوذ ہوتی ہیں ، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے پاس خبررساں ایجنسیوں کا ایسا ’بلاک‘ ہے جو دنیا میں شائع ہونے والی 90 فیصد خبروں کا واحد ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ امریکی خباروں میں 1851ء سے مسلسل شائع ہونے والے اخبارات میں ’نیویارک ٹائمز‘، ’ہیرالڈ ٹربیون‘، رسائل و مجلّات میں ’ریڈر‘ ڈائجسٹ، ’نیشنل جیوگرافک‘میگزین، ٹائم اور ’نیوز ویک‘، ٹی وی چینلوں میں N.B.C، A.B.C اور 1980ء سے عالمی سطح پر مشہور ہونے والے چینل CNN کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جوبلا مبالغہ پوری دنیا میں امریکی پالیسی کے لیے ماحول سازگار کرنے میں سب سے زیادہ ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ امریکہ اپنے مضبوط ترین ذرائع ابلاغ کی وجہ سے ہی ، کروڑوں لوگوں کے افکار و خیالات کو ہم آہنگ بنانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔اس وسیع ترین میڈیائی جال ہی کی بدولت امریکی ثقافت و رسوم و رواج پوری دنیا میں پھیلے ہیں ، حتیٰ کہ امریکی میڈیا نے اس بات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے کہ لوگ خواہ دنیا کے کسی بھی خطّے سے تعلق رکھتے ہوں ، امریکن انداز ہی پر انگلش زبان لکھیں اور امریکی طریقے کے مطابق ہی انگلش لفظ کے ہجے’اسپیلنگ‘ کریں ۔
امریکی میڈیا کی قوت کا اندازا عمومی سطح پر پہلی خلیجی جنگ کے موقع پر ہوا، جبکہ عراق میں پوری طرح امریکی ذرائع ابلاغ کا کنٹرول تھا۔امریکی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلوں نے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا، بلکہ امریکی حکومت کی منشا کے مطابق خبریں نشر کیں ، نیز جنگ سے پہلے پوری دنیا میں امریکہ کے حق میں فضا ساز گار کی اور عراق کو ایک دہشت گرد ملک کی صورت میں پیش کیا۔[1]
مواصلاتی دنیا پر امریکی سایہ
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ سیاسی اور اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ، عقلوں کو فتح کرنے اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا میں رائج کرنے کے لیے امریکہ نے ذرائع ابلاغ اور مواصلاتی نظام کا سہارا
[1] ایضاً:ص111