کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 88
ہے۔اس نیوز ایجنسی کے، امریکہ میں ایک سو سترہ(117) دفاتر اور غیر ملکوں میں 81 اخباری مراکز ہیں ، جہاں پانچ سو انسٹھ (559) نامہ نگار متعین ہیں ، ایجنسی میں کام کرنے والے ایڈیٹروں اور صحافیوں کی تعداد جو صدر دفتر میں متعین ہیں ، ڈھائی ہزار (2500) ہے، یہ ایجنسی صد فی صد یہودی سرمایے سے چلتی ہے، اس کے علاوہ 95 فیصد کارکن یہودی ہیں ، اس لیے اس کو ’یہودی نیوز ایجنسی‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ [1] 2. 1907ء میں امریکہ کے دو یہودی سرمایہ کاروں نے ’یونائٹیڈ پریس‘ کے نام سے ایک نیوز ایجنسی کی بنیاد ڈالی، اس کے دو سال بعد 1909ء میں ’انٹرنیشنل نیوز سروس‘ کے نام سے کمپنی قائم ہوئی، جس نے بعد میں ایسے عالمگیر اشاعتی ادارے کی حیثیت اختیار کرلی جس کی شاخیں دنیابھر میں پھیل گئیں ، یہ دونوں نیوز ایجنسیاں بھی صد فی صد یہودیوں کی تھیں ۔ پھر 1958ء میں ’یونائٹیڈ پریس‘اور ’انٹرنیشنل نیوز سروس‘ آپس میں ضم ہوگئیں اور ’نیویارک ٹائمز‘ کی ملکیت میں آگئیں جو ایک یہودی کے ماتحت ہے۔1984ء میں ان کو ’میڈیا نیوز کارپوریشن‘میں ضم کردیا گیا۔اس نیوز ایجنسی کے خریداروں کی تعداد سات ہزار اناسی (7079) ہے، جن میں سے دو ہزار دو سا چھیالیس (2246) خریدار:اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن، امریکہ سے باہر کے ہیں ۔اس مرکزی خبررساں ایجنسی کے ماتحت 30 خبر رساں ایجنسیاں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ 3.’یونائٹیڈ پریس انٹرنیشنل‘سے امریکہ میں گیارہ سو چونتیس (1134) اخبارات، پبلشنگ ادارے اور تین ہزار چھ سو ننانوے (3699) ریڈیو اسٹیشن وابستہ ہیں ، پوری دنیا میں اس ایجنسی کے ایک سو ستتر (177) مراکز ہیں ، صرف امریکہ میں اس کے چھیانوے (96) دفاتر ہیں ، روزانہ 18 ملین الفاظ پر مشتمل مضامین اور خبریں خریداروں کوبھیجی جاتی ہیں جب کہ روزانہ بیاسی (82) تصاویر بھیجنے کا اوسط ہے۔[2] 4. عالمی نیوز ایجنسیوں کا جب تذکرہ آتا ہے تو مشہور خبررساں ایجنسی ’رائٹر‘ کا نام سرفہرست آتا ہے۔یہ ایجنسی برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ذرائع ابلاغ کو سب سے زیادہ خبریں
[1] مغربی میڈیا او راس کے اثرات، ص113 [2] أمریکا المستبدة: ص113 و 114