کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 86
بالادستی قائم رکھنی ہے تو امریکی ثقافت کی بھی عالم کاری کرنی ہوگی، اس مقصد کے لیے اُنہوں نے ’مواصلات‘ کو، بہ الفاظ دیگر ذرائع ابلاغ کو ذریعہ بنایا۔ انہیں یہ معلوم تھا کہ اگر پورے عالم کی امریکہ کاری کرنی ہے تو امریکی طرزِ زندگی کو مثالی اور قابل تقلید بنانا ہوگا ، لوگوں کی عقلوں پرکمند ڈال کر ان کو اپنے قابوں میں لینا ہوگا۔ لوگوں کے افکار و خیالات پر شب خون مارنے کے لیے اُنہوں نےذرائع ابلاغ کا انتخاب کیا اور اس راہ سے پوری دنیا میں امریکی ثقافت کو قابل تقلید بنانے کی کامیاب کوشش کی۔
درحقیقت عالم گیریوں نے یہ طریقہ کار یونانیوں سے اخذ کیا تھا، ’سقراط‘ کے زمانے میں ہی یونان کے فرماں رواؤں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ محض سیاست کے گلیاروں پر قبضہ کرکے اپنے اقتدار کودوام نہیں بخشا جاسکتا، اس کے لیے عوام کی ذہن سازی کرنی ہوگی ۔انہیں اپنے تیار کردہ نقشہ راہ پر چلانا ہوگا، اپنے رسوم و رواج کو ان کے نزدیک پرکشش بنانا ہوگا اور اُن کی سوچ کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنا ہوگا، یہی طریقہ عالم گیریوں نے اپنی تحریک کو دوام بخشنے کے لیے اختیار کیا اور اس طریقے کو ہمہ گیر بنانے کے لیے ذرائع ابلاغ کا انتخاب کیا۔[1]
مواصلات دراصل ایسے افعال کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے لوگ آپس میں جذبات ، احساسات ، تاثرات ، افکار، خیالات او رمعلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ، یہ تبادلہ ایسے وسائل کے ذریعے ہوتا ہے جن کو دو الگ الگ قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
1. ایسے محدود وسائل، جو محدود افراد کو باہم مربوط کریں ، ان وسائل میں ٹیلی فون، فیکس وغیرہ کے ساتھ ساتھ جلسے، کانفرنسیں او رسیمینار بھی شامل ہیں چونکہ یہ بھی چند افراد کے باہمی رابطے کا ذریعہ ہیں ۔
2. ایسے وسائل جو غیر محدود افراد تک بات پہنچانے کا ذریعہ ہوں ،ان میں اخبار، ٹی وی، سنیما، فلمیں ، ٹی وی کے اشتہارات اور انٹرنیٹ وغیرہ داخل ہیں۔
امریکی ثقافت کے فروغ میں ، دوسری قسم کے وسائل نےاہم کردار ادا کیا، جس پر امریکہ نے آغاز ہی سے اپنا کنٹرول قائم کرلیا تھا او رامریکہ کے واسطے سے یہودیوں نے ذرائع ابلاغ کو اپنے قبضے میں کررکھا تھا جو آج تک اُنہی کے زیر اثر ہے او ربدقسمتی سے جمہوریت کا چوتھا ستون
[1] أمریکا المستبدة، ص102 و ص 108