کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 85
جیسی تابندہ تعلیمات کے نتیجے میں چار دانگ عالم میں پھیلا ہے، اسی طرح اسلامی تہذیب نے بھی اپنی امتیازی خصوصیات کی بنا پر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا ہے اور اقوامِ عالم نے رنگ و نسل کے اختلاف کے باوجود اس میں کشش محسوس کی ہے جبکہ سابقہ اقوام نے اپنی ثقافت کو رائج کرنے کے لیے طاقت و قوت اور تشدد کی راہ اختیار کی او رزبردستی لوگوں کواپنی تہذیب کا ہم نوا بنایا۔[1]
آج جب تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے اور تقدیر نے مغرب کو مشرق پر فوقیت عطا کی ہے تو مغربی تہذیب و تمدن کے ماننے والوں کی یہی کوشش ہے کہ وہ اپنی تہذیب کو اطراف عالم میں رائج کردیں ۔ وہ لوگ اپنی ان کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ، اس لیے کہ مغربی تہذیب اگرچہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے یکسر عاری ہے، لیکن اس کی نشرواشاعت میں تشدد کا زیادہ حصہ نہیں رہا ہے بلکہ اس مرتبہ مغربی تہذیب کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لیے نئے طریقے ایجادکیے گئے اوراُن پر بڑی چالاکی کے ساتھ منصوبہ بند طریقے سے عمل درآمد کیا گیا، اسی طرح انفارمیشن اورٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتی ہوئی ترقی نے مزیدکام آسان کردیا اور مغربی تہذیب کو اس کے کھوکھلا ہونے کے باوجود دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیا۔
آج ہم جس تہذیب کو مغرب کی جانب منسوب کرتے ہیں وہ دراصل امریکی تہذیب ہے، اس لیے کہ یورپ کے پاس، جو ماضی میں ایک منفرد تہذیب کا حامل تھا، اب کچھ بچا ہی نہیں ، جس کو وہ تہذیب کا نام دے۔ چند ممالک نےبہت دیر میں غفلتوں سے بیدار ہونے کے بعد اپنی زبان کو ثقافتی ورثے کی حیثیت سے بچانے کی کوشش شروع کی ہے ، ورنہ زبان کے علاوہ اب یورپ کے پاس اپنا کچھ نہیں رہ گیا، بلکہ سب کچھ امریکی رنگ میں رنگ چکا ہے، اس لیے زبان کے استثنا کے ساتھ مغربی تہذیب دراصل امریکی تہذیب ہی کہلاتی ہے ، جسے امریکہ نے یورپ سمیت پوری دنیا میں مواصلات کے ذریعے عام کیا او راس میدان میں ترقی کی رفتار کے ساتھ ساتھ امریکی تہذیب کے پھیلاؤ میں تیزی آتی گئی۔
مواصلات؛ مغربی ثقافت کا ہتھیار
عالم گیریوں کو اس بات کا اندازا تھا کہ مستقبل میں اگر سیاسی اور اقتصادی میدان میں اپنی
[1] ما العولمة ؟ از حسن حنفی ، ص38