کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 84
تقسیم ہوجائے، ایک طبقہ جس کے افراد زیادہ ہوں ، ان کی حیثیت عالمی بازار کے ایک صارف کی ہو، ان کا کام ٹیکس ادا کرنا اور عالمی ثروت کے حق دار طبقے کی خدمت کرنا ہو ، جبکہ دوسرا طبقہ کم افراد پر مشتمل ہو، جو سب کے سب تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار ہوں ، ان کا کام اپنی تجارت کو فروغ دینا اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہو۔
ثقافتی عالمگیریت کایہی مقصد ہےکہ مغربی ثقافت کےرواج پانے سے جہاں سیاسی مفادات پورے ہوں ، وہیں اقتصادی منصوبوں میں بھی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو او رروئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ بچے، جس کے ذہن میں مغربی پالیسیوں کے بارے میں سوالات کھڑے ہوں ، جس کی زبان سے صہیونی مفادات کے خلاف کوئی حرف نکلے او رجس کی سوچ اور نظریے سے دوسرے لوگ بھی راہ پائیں اور عالمگیریت کے راستے میں حائل ہوجائیں ۔
ثقافتی بالادستی ؛ایک قدیم روش
ہرباشعور اور زندہ قوم ، اپنی تہذیب و تمدن کو اپنے لیے مایۂ افتخار سمجھتی ہے ، اس کے نزدیک ثقافت سےبڑھ کر کوئی اجتماعی دولت نہیں ہوتی، اس لیے قدیم زمانے ہی سے تہذیب و ثقافت کی نشرواشاعت کا سلسلہ قائم ہے، ہر قوم نے اپنے تمدن کودوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، فرق یہ ہے کہ کسی نے امن کی راہ اختیار کی ، تو کسی نے پرتشدد طریقے سے یہ کام انجام دیا۔
چنانچہ قدیم مصری تاریخ میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ اس زمانے کی مصری تہذیب ہی دیگر اقوام کے لیے نمونہ سمجھی جاتی تھی، بقیہ تہذیبیں اپنے اپنے علاقوں تک محدود تھیں یا ان کا ٹمٹاتا ہواچراغ بجھا چاہتا تھا، مصری تہذیب کے بعد یہ مقام و مرتبہ کنعانی ثقافت کو حاصل ہوا، قدیم ہندوستان کی ثقافت کوبھی یہ مرکزیت حاصل رہ چکی ہے۔
چین کا تمدن بھی اپنے زمانےمیں لوگوں کے لیے باعثِ تقلید بنا ہے، اسکندر اعظم کی فتوحات کےساتھ ، یونانی تہذیب نےدنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے جھنڈے گاڑے ہیں اور اس کو مغرب سے لے کر مشرق تک، مرکزی تہذیب ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، پھر رومی اور فارسی تہذیبوں کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کو یہ مقام حاصل رہا، جو شمال مغرب میں ’اندلس‘ کوعبور کرکے یورپ تک پہنچی، شمال مشرق میں وسط ایشیا تک اور جنوب مشرق میں فارس، ہندوستان ، حتیٰ کہ چین تک اس کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، لیکن اسلامی تہذیب اور اسلام سے ماقبل کی ثقافتوں میں فرق یہی رہا ہے کہ جس طرح اسلام، اخلاق و مساوات اور بلند اقدار