کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 83
اب اگر وہ قوم ان تبدیلیوں کو قبول کرلے او راپنی ثقافت سے منہ موڑ لے، تو گویا اس نے پنے تشخص کا خاتمہ کردیا او راپنے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ گلوبلائزیشن جہاں سیاسی اور اقتصادی سطح پر اپنے آپ کو نافذ کرناچاہتا ہے، وہیں تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ سیاست اور معیشت کے بعد، اس کا مقصد یہ ہے کہ ثقافت کی بھی عالم کاری کردی جائے او رپوری دنیا پر ایک ہی طرح کا تمدن مسلط کردیا جائے۔لوگوں میں رنگ و نسل کا اختلاف تو پایا جائے(جو قدرتی او ریقینی ہے)، لیکن زبان، مزاج و مذاق، رہن سہن اور معیارِ زندگی، حتیٰ کہ فکر و نظر میں بھی مماثلت اور یگانگت قائم ہوجائے۔ لوگوں کی زبان ایک ہو، جبکہ بقیہ زبانیں تاریخ کے حوالے کردی جائیں ، ان کے احساسات و نظریات ایک طرح کے ہوں ، تاکہ نظریات کے اختلاف کی وجہ سے، کسی کے مفادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی ہوسکے او ران کا طرزِ زندگی بھی ایک ہو، تاکہ زندگی میں پرتعیش اشیا کو بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کو کبھی کساد بازاری کی شکایت نہ ہوسکے۔ اب تک عالمگیریت کے دیگر شعبوں میں مغربی اور امریکی اقدار کا غلبہ رہا ہے، بلکہ دیگر رجحانات کی طرف نظر التفات بھی نہ کی گئی، سیاست کو امریکی مفاد کے مطابق ڈھالا گیا، اقتصادیات کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیا گیا، لہٰذا جب ثقافتی عالم گیریت کی باری آئی تو فطری طور پر مغربی اور امریکی ثقافت ہی کو اقوام عالم پر مسلط کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، اسی کو یہ حق دیا گیاکہ وہ پوری دنیا کی مشترکہ تہذیب بنے، اسی کو اس لائق سمجھا گیا کہ وہ عالمی تمدن کی شکل اختیارکرلے۔ ثقافتی عالمگیریت کو اگرچہ بعض لوگ کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن درحقیقت عالمگیریت کا سب سے خطرناک پہلو’ثقافتی عالمگیریت‘ ہی ہے، کیونکہ سیاست اور اقتصادیات کی عالم کاری مادیت کے پیش نظر کی جارہی ہے جبکہ ثقافت کا تعلق مذہب سے ہے، خصوصاً اسلامی تہذیب و تمدن، مذہبِ اسلام کی اساس ہے،اس لیے دنیا کی تمام تہذیبوں بشمول اسلامی تہذیب کو ختم کرکے صرف مغربی تہذیب کو مسلط کرنا ، براہِ راست مذہب پر حملہ ہے، بنا بریں ثقافتی عالمگیریت کو سہل پسندی کے ساتھ نہیں لیا جاسکتا۔ عالمگیریت کے پالیسی ساز ادارے، تہذیب و تمدن کی عالم کاری اس لیے کرنا چاہتے ہیں تاکہ رسوم و رواج ،عادات و اطوار اور معیارِ زندگی میں مماثلت کی وجہ سے انسانیت دو طبقوں میں