کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 82
کو قریب لانے سے متعلق جو کانفرنسیں ہوئیں ، ان میں اسلامی تہذیب ہی کو نشانہ بنایا گیا اور اسلامی ثقافت کے بڑے حصّے کو پس پشت ڈال دینے کی ترغیب دی گئی۔ نیز اس کی جگہ مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے پر زور دیا گیا ، اس لیے ’تہذیبوں کو قریب لانے‘ کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ محض فریب اور دھوکہ ہے!! موجودہ دور میں جس کو حقیقت کہا جاسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے ٹھیکے داروں کی یہ کوشش رہی ہے اور مستقبل میں بھی یہی رہے گی کہ ہر قوم کی تہذیب، ثقافت اور اس کے تمدن کو ختم کردیا جائے او رپوری دنیا میں ایک ہی طرح کی تہذیب رائج کردی جائے، جو مغربی بلکہ امریکی اقدار پر مبنی ہو، تاکہ دنیا اس تہذیب کو اپنا کر اس طرح زندگی گزارے کہ مغربی مفادات میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو او رعالمگیریت اپنے تمام مقاصد میں کامیابی سے ہم کنار ہوجائے، اس لیے کہ جب سطح زمین پر پائی جانے والی قومیں ، امریکی ثقافت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گی، تو اُنہیں امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ثقافتی عالمگیریت پوری دنیا میں کس طرح فروغ پارہی ہے؟ اس کے کیا اسباب و عوامل ہیں ؟ کیا اہداف و مقاصد ہیں ؟ اور کیا آثار و نتائج ہیں ؟ Michel Bugnon Mordant(مائیکل بگنن) اپنی کتاب أمریکا المستبدة (عربی ترجمہ) میں لکھتے ہیں : ’’کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ، مہارت و لیاقت، فنی ادبی اورعلمی صلاحیتیں رسوم و رواج او راس کے اقدار ہوتے ہیں ، جس طرح یہ مذکورہ چیزیں تمدن کا ایک حصہ ہیں ، اسی طرح كسی قوم کا لباس ، کھانے پینے کی اشیا، اُسلوبِِ عمل، کھیل کودکے طریقے، محبت و مسرت اور خوشی و غم کا انداز اور اس کے احساسات وجذبات بھی ثقافت میں شامل ہیں ، اگر ہم کسی قوم سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنی مذکورہ صفات سے کنارہ کش ہوجائے، اپنے اندازِ فکر اور احساسات و نظریات سے عہدہ برآ ہوجائے اوراپنی زبان و لباس کو تبدیل کردے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس قوم سے اس کی ثقافت کو سلب کررہے ہیں او راس کے تمدن کو چھین کر ، دوسری تہذیب اس پر مسلط کررہے ہیں ۔‘‘[1]
[1] أمریکا المستبدة الولایات المتحدة... الخ: ص108