کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 81
عالمی استعمار مولانا یاسر ندیم
امریکی ثقافت کی عالم کاری(گلوبلائزیشن) کے ذرائع
تہذیب و ثقافت، محض چند رسوم و رواج اور افکار وخیالات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ تہذیب و تمدن میں حقیقی طور پر مذہبی عنصر غالب ہے۔ کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے نظریات و خیالات او راس میں موجود رسوم ورواج کا سلسلہ، کسی نہ کسی طرح مذہب سے ضرور ملتا ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ وہ رسوم و رواج مذہب کی نظر میں صحیح ہیں یا غلط، ہمارے ارد گرد ہونے والے رسوم ورواج نسل در نسل چلے آرہے ہیں ۔ رواجوں کو دوام عطا کرنے کے لئے انہیں بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس لیے کسی بھی دین کا سچّا متبع بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس دین کی ثقافت اور کلچر کو بھی اپنائے اور اپنی زندگی میں کسی دوسری قوم کی ثقافت کو بسنے کا موقع نہ دے۔
گزشتہ چند سالوں سے گلوبلائزیشن کی اصطلاح کے ساتھ ساتھ، دوسری دو اصطلاحوں کوبھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے :
تہذیبوں کاتصادم اور تہذیبوں کے درمیان مذاکرات
عالمگیریت کے کچھ مؤیدین کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا جائے، ہر تہذیب کے ماننے والے، دوسری تہذیبوں سےبھی اچھی باتیں اخذ کریں اور اُنہیں اپنی زندگی میں جگہ دیں ، اس کے لیے مختلف تہذیبوں کے نمائندے، باہمی مذاکرات کی راہ اپنائیں اور ہر تہذیب کی قابل قبول باتوں پر اتفاق کرلیں ، اس طرح ایک عالمی تہذیب او ریکساں ثقافت کا وجود ہوسکتا ہے۔
لیکن اگراس نظریے کو مذہبی تناظر کے ساتھ ساتھ موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے تہذیب و تمدن کا ترک کرنا، دراصل اس مذہب کو ترک کرنے کے مترادف ہے، علاوہ ازیں گزشتہ چند سالوں میں دنیا کے مختلف گوشوں میں ، تہذیبوں