کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 80
تائید کرتا ہے جيسا كہ عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابو ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ سے کہا گیا : اے امّ المومنین! عَقِّی عَنْهُ جَزُوْرًا، فَقَالَتْ : مَعاَذَ اللّٰهِ! وَلٰکِنْ مَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم شَاتَانِ مُکَافَئَتَانِ[1] ”اسکی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں ، اس پر اُنھوں نے کہا : معا ذ اللہ ! بلکہ (ہم وہ ذبح کریں گے) جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (لڑکے کی طرف سے) دو ایک جیسی بکریاں ۔“ عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنا ثابت نہیں اور جس روایت میں عقیقہ میں گائے اور اونٹ ذبح کرنے کی مشروعیت ہے وہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اور وہ یہ کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ فَلْیَعُقَّ مِنْ الإِْبِلِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الْغَنَمِ)) [2] ”جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ (عقیقہ میں ) اونٹ، گائے یا بھیڑ بکری ذبح کرے۔“ 1۔اس روایت میں امام طبرانی کے اُستاد ابراہیم احمد بن مرادی واسطی ضعیف ہیں ۔ 2۔عبد الملک بن معروف خیاط مجہول ہے۔ 3۔ مسعدہ بن یسع باہلی کذاب ہے۔ 4۔ حریث بن سائب تمیمی اور حسن بصری کی تدلیس ہے۔ عقیقہ کے جانور کی شرائط عقیقہ کے جانور میں وہ شرائط نہیں ، جو قربانی کے جانور میں ہیں ، لیکن مبنی بر احتیاط یہی ہے کہ قربانی کی شرائط عقیقہ میں بھی ملحوظ رکھی جائیں ، کیونکہ عقیقہ کے جانور کے لیے شاة (بکری) اور کبشًا( مینڈھے) کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور لفظ شاة کا اطلاق اس بکری پر ہوتا ہے جو بچہ جننے کے قابل ہو، اس طرح کبشٌ کا اطلاق پوری عمر کے جوان مینڈھے پر ہوتا ہے، لہٰذا بکری اور مینڈھے میں پوری عمر کے جوان جانور ذبح کیے جائیں اور وہ جانور نقائص و عیوب سے بھی پاک ہونے چاہییں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جانے والی چیز کا نقائص و عیوب سے پاک ہونا افضل ہے۔
[1] سنن بیہقی: ۹/۳۰۱ إسنادہ حسن... عبد الجبار بن ورد صدوق راوی ہے۔ [2] طبرانی صغیر : ۲۲۹... یہ روایت مسلسل بالضعفاء ہے۔ (موضوع)