کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 8
معلوم ہوا کہ ایک دو آدمیوں کی خبر معتبر اور قابل قبول ہے، تب ہی تو آپ نے اسے اختیارفرمایا ہے۔ منکرین حدیث میں سے کوئی شخص یہ اشکال پیش کرسکتا ہے کہ یہاں تو قاصد اور مبلغ کوبھیجنے والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور جسے بھیجا جاتا تھا، وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔ لہٰذا ان کی بات تو معتبر ہے خواہ خبر دینے والا ایک ہی ہو جبکہ دیگر رواۃِ حدیث کا یہ حکم نہیں ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کی طرف اس مبلغ یا قاصد کوبھیجا گیا تھا، وہ غیر مسلم قوم سے تعلق رکھتے تھے جو نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو مانتےتھے او رنہ ہی قاصد یا مبلغ کو صحابی تسلیم کرتے تھے جن کی ثقاہت ان کے ہاں مسلّم ہو۔ ان کے نزدیک تو صحابی عام آدمی کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن آپ نے اُن کو یقین دلانے کے لیے ان کی طرف لوگوں کی ایک جماعت کو نہیں بھیجا جن سے تواتر حاصل ہوجائے بلکہ ایک آدمی بھیج کر ان پر حجّت قائم کردی تاکہ وہ عنداللہ پیغامِ حق نہ پہنچنے کا عذر نہ کرسکیں ۔ عہدِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خبر واحد (حدیث) کے قبول کرنے میں سبقت لے جانے والے تھے، ان کے ہاں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ، اس سےمتعلق اُنہیں حدیث مل جاتی تو آپ اس کے مطابق فیصلہ صادر فرما دیا کرتے تھے۔ وہ کبھی اس کے حد تواتر تک پہنچنے کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے، جیسا کہ موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ میں یہ واقعہ موجود ہے کہ’’ ایک دادی اپنے فوت ہونے والے پوتے کے مال سے اپنا حصہ معلوم کرنے کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے علم کے مطابق اس پر کوئی حدیث نہیں ہے جس کے مطابق تجھے حصہ دلوایا جائے اور فرمایا کہ میں اس سے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کروں گا، اگر حدیث سے تیرا حصہ ثابت ہوا تو تجھے دلوا دیا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اس مسئلہ کو رکھا تو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو پوتے کے مال سے جب چھٹا حصہ دیا تھا تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس