کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 76
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠﴾ ” کہہ دو، اگر تم اللّٰہ کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اس آیت میں وہی محبت کا لفظ ہے، مگر باوجود اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے، ٹھیک اسی طرح حدیثِ مذکور کو سمجھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جیسے شرط ہوتی ہے ویسے ہی جزا کا حکم ہوتا ہے، اللہ کی محبت چونکہ ضروری ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع بھی ضروری ہے، اسی طرح عقیقہ چونکہ ضروری ہے جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے، اس لیے لڑکے کی طرف سے دو بکریاں (یعنی دونوں مُسنّہ) ہوں اور لڑکی کی طرف سے ایک ضروری ہے، یعنی اس سے کم نہ کرے، ہاں اگر حدیث یوں ہوتی کہ جو عقیقہ کرنا دوست رکھے تو وہ عقیقہ کرے تو پھریہ حدیث استحباب کی دلیل بن سکتی تھی،اب نہیں ۔ علاوہ ازیں محبت کے لفظ سے خلوص مقصود ہے، پس اس صورت میں مطلب یہ ہو گا، جو اخلاص سے عقیقہ کرے، وہ دو ہم عمر بکریاں لڑکے کی طرف سے کرے اور ایک لڑکی کی طرف سے اور ظاہر ہے کہ اخلاص ضروری ہے، پس عقیقہ خود ہی ضروری ہے۔[1] کیا عقیقہ کے بجائے رقم صدقہ کرنا جائز ہے ؟ کچھ لوگ عقیقہ کرنے کے بجائے اتنی رقم صدقہ کر دیتے ہیں ، لیکن احادیثِ عقیقہ کی لغوی تعریف کی رو سے عقیقہ کا جانور ذبح کرنا لازم ہے، رقم صدقہ کرنے سے عقیقہ نہیں ہو گا، چنانچہ ابن قدامہ حنبلی بیان کرتے ہیں : ’’ عقیقہ کی رقم صدقہ کرنے کے بجائے عقیقہ کرنا افضل ہے، امام احمد نے اس پر نص بیان کی ہے اور وہ کہتے ہیں : جب عقیقہ کرنے والے کے پاس عقیقہ کرنے گنجائش نہ ہو اور وہ قرض لے کر عقیقہ کرے تو مجھے قوی اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے احیاے سنّت کے عوض بہتر نعم البدل دے گا۔ ابن منذر کا قول ہے کہ امام احمد کا قول مبنی بر حق ہے، کیونکہ سنت کا احیا اور ان کی اتباع افضل ہے، نیز عقیقہ کے متعلق روایات میں جتنی تاکید آئی ہے، دیگر مسائل میں اتنی تاکید وارد نہیں ہوئی، پھر اس ذبیحہ کے بارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم بھی دیا ہے، سو ولیمہ اور قربانی کی طرح عقیقہ
[1] فتاویٰ اہل حدیث از حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ : ۲/۵۴۸، ۵۴۹