کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 75
عقیقہ واجب ہے یا سنّت ؟ عقیقہ کے واجب و غیر واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ حسن بصری تابعی اور ظاہر یہ وجوب کے قائل ہیں اور جمہور کہتے ہیں ، سنت ہے اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں : ”نہ فرض ہے، نہ سنت۔“ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد کے نزدیک قربانی کے ساتھ منسوخ ہو گیا ہے اور امام ابو حنیفہ سے یہ بھی روایت ہے کہ یہ جاہلیت کی رسم تھی، اسلام نے اسے مٹا دیا ہے، شاید امام ابو حنیفہ کو عقیقہ کی احادیث نہ پہنچی ہوں ۔ یہ تمام اقوال امام شوکانی نے نیل الأوطار میں ذکر[1]کیے ہیں ۔ امام شوکانی کا میلان جمہور کے مذہب کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے جمہور کی دلیل کے طورپر جو حدیث پیش کی ہے، اس حدیث میں (( أحَبَّ)) ( جو پسند کرے) کا لفظ چاہتا ہے کہ عقیقہ ضروری نہ ہو۔ مگر یہ دلیل کمزور ہے، کیونکہ دوسری احادیث سے ضروری ثابت ہوتا ہے، کیونکہ بعض روایتوں میں صیغہ امر آیا ہے۔ مثلاً (( أَهْرِیْقُوْا عَنْهُ دَمًا)) ”اس سے خون بہاؤ“ جو وجوب کے لیے ہے اور بعض میں (( رَهِیْنَةٌ)) کا لفظ آیا ہے۔ جس کا معنی ہے کہ عقیقہ نہ ہو تو بچہ ماں باپ کی شفاعت نہیں کر سکتا، یا عقیقہ اس طرح لازمی ہے جیسے کوئی شے گروی ہوتی ہے اور قرض کی ادائیگی کے بغیر چھوٹ نہیں سکتی اور بعض نے اس کے معنی کیے ہیں کہ وہ گروی کی طرح بند ہے۔جب تک عقیقہ نہ کیا جائے، نہ نام رکھا جائے اور نہ بال اُتارے جائیں اور بال اُتارنے سے تو چارہ نہیں ، پس عقیقہ بھی ضروری ہو گیا اور بعض روایتوں میں (( أَمَرَنَا)) کا لفظ آیا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیقہ کا حکم دیا، اس سے بھی وجوب ثابت ہوتا ہے۔ امام شوکانی نیل الأوطار میں کہتے ہیں ، اگرچہ یہ الفاظ وجوب کے لیے ہیں ، مگر (( مَنْ أَحَبَّ)) کا لفظ قرینہ صارفہ ہے، اس لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ الفاظ سے وجوب مراد نہیں ، بلکہ امر استحبابی ہے، لیکن امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ امر کا صیغہ یا امر کا لفظ کبھی قرینہ کے ساتھ استحباب کے لیے آ جاتا ہے، لیکن (( مَنْ أَحَبَّ)) کے معنی استحباب کے لیے مشکل ہے، علاوہ اس کے (( رَهِیْنَةٌ)) کا لفظ استحباب کے لیے تسلی بخش دلیل نہیں ۔ دیکھیے قرآن میں ہے ﴿ قُلْ
[1] جلد ۴/صفحہ۳۶