کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 73
عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابعین رحمۃ اللّٰه علیہم وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ"[1]
”اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ رضی اللہ عنہم ، فقہاے تابعین رحمۃ اللہ علیہم اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔“
حافظ ابن قیم الجوزیۃ کا بیان ہے :
"فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم "[2]
”جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔“
ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں :
سُئِلَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: (( لاَ یُحِبَّ اللّٰهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ)) وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ[3]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عقوق کو نا پسند کرتا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام ( عقیقہ) نا پسند کیا۔ پھر فرمایا : ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔“
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ
1. امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حدیث میں : (( مَنْ أَحَبَّ)) کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔[4]
2. حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں : اس حدیث میں (( مَنْ أَحَبَّ))کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔[5]
3. امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : "وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ
[1] المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱/۱۲۰
[2] تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸
[3] سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷
[4] نیل الأوطار : ۵/۴۴
[5] التمہید لا بن عبد البر : ۴/۳۱۱