کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 7
فإذا أقرّوا بذلك فخذ منهم وتوق كرائم أموال الناس)) [1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا آپ اہل کتاب کی طرف جارہے ہو، سب سے پہلے اُنہیں توحیدِ باری تعالیٰ کی دعوت دینا، جب وہ اس کا اعتراف کرلیں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ۔ جب وہ نماز پڑھنےلگیں تو اُنہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں زکوٰۃ فرض کی ہے ، جو ان کے امیروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی ، جب وہ اس کا بھی اقرار کرلیں تو آپ ان سے زکوٰۃ لیتے وقت ان کے عمدہ مال لینے سے بچیں ۔‘‘ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوتِ اسلام دینےکے لیےغیر مسلم حکمرانوں کو خط بھیجا کرتے تھے تو اس کے لیے بھی ایک آدمی کا انتخاب فرمایا کرتے تھے تاکہ وہ مراسلہ اس حکمران تک پہنچا دے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں : أنّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بعث بكتابه إلىٰ كسرى مع عبد اللّٰه بن حذافة السهمي فأمره أن يدفعه إلىٰ عظيم البحرين فدفعه عظيم البحرين إلى كسرٰى فلمّا قرأه مزقه [2] ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اپنا خط کسریٰ کی طرف بھیجا او رفرمایا کہ آپ یہ خط بحرین کے سردار کو دے دیں ، وہ آگے کسریٰ تک پہنچا دے گا۔یوں یہ خط جب کسریٰ کے پاس پہنچا تو اُس نےپھاڑ دیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ آپ نے اپنے دور میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے ایک ہی آدمی کو مبلغ یا قاصد یا کمانڈر بنا کربھیجا اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ آپ نے کبھی ایک بڑی جماعت کو قاصد یا مبلغ بنا کربھیجا ہو تاکہ ان کی کثیر تعداد سے تواتر حاصل ہوجائے اور ان کی بات یقینی قرار پائے۔
[1] صحیح بخاری مع الفتح: 13/347 [2] صحیح بخاری : 8 /126