کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 66
بھی معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے بے رُخی برتی) سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابو ایوب جنگ سے واپس آ کر، پھر معاویہ کے پاس آئے۔ ابو ایوب جنگ کو جاتے ہوئے اور جنگ سے واپس آتے ہوئے، معاویہ سے کس مقام پر ملے؟ اس کا اس ضعیف حدیث میں تذکرہ تک نہیں ہے۔ ہم نے مولانا کے اس ترجمہ میں غلطی کی اس لئے نشاندہی کی ہے تاکہ قارئین کو دامانوی صاحب کے اس غلطی سے باخبر کیا جائے، جس کی بنا پر اُنہوں نے’معاویہ رضی اللہ عنہ کا قسطنطنیہ پر تیسرا حملہ‘ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے۔ بالفرض یہ صحیح بھی ہوتی تب بھی اس سے حضرت ابو ایوب انصاری اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جائے ملاقات کا نام تک نہیں ہے۔ لیکن مولانا دامانوی صاحب کس قدر بے باکانہ انداز میں لکھتے ہیں : اس روایت سے واضح ہو رہا ہے کہ ’’سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ،سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی قسطنطنیہ کے جہاد میں شریک ہوئے تھے۔ پھر اس جہاد میں حصہ لے کر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس بھی آ گئے۔ سیدنا ابو ثعلبہ خشنی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں کی روایات کو الگ الگ واقعات مانا جائے تو خلیج قسطنطنیہ کو ملا کر یہ تین حملے بنتے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر امارت قسطنطنیہ پر کئے گئے تھے۔[1] مولانا دامانوی صاحب کا مذکورہ بالا بیان بلا ثبوت اور مضحکہ خیز ہے۔ اس کی کوئی دلیل نہیں ، یہ دامانوی صاحب کی محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔مولانا دامانوی صاحب نے جو ضعیف حدیث مستدرک حاکم کے حوالے سے سے نقل کی ہے، اگر اس کے آخری الفاظ پر غور کرتے تو وہ اس شرمندگی سے بچ سکتے تھے جو اس وقت ان کو درپیش ہے۔ اس ضعیف حدیث کے آخر میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : "وَ قَدْ تَقَدَّمَ هٰذَا الحدیث بإسناد متصل صحیح واعَدْتُّهُ للزیادات فيه بهٰذا الأسناد "[2]
[1] ماہنامہ’محدث‘، جنوری ۲۰۱۰: ص ۶۲ [2] الحاکم ، ابوعبداللہ : المستدرک : ۳/۴۶۱،۴۶۲