کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 60
وجه الذي رواه منه، ولا مِن وجه آخرَ[1] ’المنکر‘ ایسی حدیث ہے جسے ایک ہی شخص روایت کر رہا ہو، اور اس حدیث کا متن اس (شخص) کی روایت سے نہ پہچانا جاتا ہو، نہ اس سند سے جس (سند) سے اس نے یہ حدیث روایت کی ہو، اور نہ ہی یہ(متن)کسی اور سند سے پہچانا جاتا ہو (اسے منکر کہا جاتا ہے)۔‘‘ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ (م ۳۶۱ھ) اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : علامة المنکر في حدیث المحدث، إذا ما عُرِضتْ روایته للحدیث علىٰ روایة غیره من أهل الحفظ والرضا، خالفتْ روایتُه، روایتَهُم أو لَمْ تکدْ توافقها، فإذا کانت الأغلب مِن حدیثه کذلك، کان مهجور الحدیث، غیرَ مقبوله ولا مستعمله[2] ’’محدث کی حدیث میں ’المنکر ‘ کی علامت یہ ہے کہ جب اس کا حدیث روایت کرنا، اس کے علاوہ اہل حفظ و رضا (عدل و ضبط والے محدثین) کے حدیث روایت کرنے پر پیش کیا جائے تو یہ ان کی روایت کے مخالف ٹھہرے یا ان سے موافقت نہ کر سکے۔ جب اس کی (روایت کی ہوئی) حدیث زیادہ تر ایسی ہو، تو ایسے شخص کی حدیث چھوڑ دی جائے گی۔ نہ اسے قبول کیا جائے گا اور نہ ہی اس پر عمل ہوگا۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وَإِنْ وَقَعَتِ المخالفة مع الضعْف، فالراجح یقال له المعروف. ومقابله یقال له المنکر [3] اور اگر (قوی) روایت، ضعیف (روایت) کے مخالف ہو، تو راجح کو’المعروف ‘ اور اس کے مقابل (یعنی مرجوح) کو’المنکر ‘ کہا جائے گا۔ مثال: کتب اصولِ حدیث میں ’المنکر‘کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ۔ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف ایک مثال ذکر کی جاتی ہے: امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ (م۳۲۷ھ) حُبَیْب بن حَبِیْب کے طریق سے
[1] ابن الصلاح، عثمان بن عبدالرحمٰن ،ابو عمرو: مقدمۃ ابن الصلاح: فاروقی کتب خانہ، ملتان، س.ن: ص ۳۷،۳۸ [2] مسلم بن حجاج، نیشاپوری: صحیح مسلم: دارالسلام ، الریاض: ۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸ء:ص ۶ [3] نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر: ص ۵۰،۵۱