کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 6
اسی طرح روزہ رکھنے کے لئے طلوعِ فجر اور غروبِ شمس کی خبر دینے کے لیے ایک ثقہ مسلمان ہی کافی سمجھا جاتا ہے او راس کی خبر پر روزہ رکھا جاتا اور افطار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلام کے دیگر فرائض و احکام میں اُمّت مسلمہ خبر واحد کو حجت مانتی ہے، گویا خبر واحد اگرچہ سند کے اعتبار سے حدِّ تواتر کونہیں پہنچتی لیکن اس کے حجّت اور دلیل شرعی ہونے کے اعتبار سے یہ’سنّتِ متواترہ‘بن گئی ہے جسے ہر دور میں اُمّت کا تعامل حاصل رہاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےلے کر آج تک اہل اسلام میں سے کسی نے بھی خبر واحد کی حجیّت سے انکار نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمۃ اللہ علیہم ، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم ، ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم ، محدثین عظام اور علماے اسلام سب کے سب اخبارِ آحاد کو شرعی دلیل کےطور پر پیش کرتے آرہے ہیں اور خبر واحد کی حجیّت سے وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو دین اسلام کی جامعیت اور اس کی وسعت کو سمجھنے سے قاصر ہےاور وہ تمام علماے اُمت ، اَئمہ و محدثین کی خدمتِ دین کے لئے ان تھک محنتوں کوناقابل اعتبار بنا دینے کے درپے ہے۔ خبر واحد عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خبر واحد کے شرعی حجت ہونے کی بنیاد تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں ہی پڑ گئی تھی، بلکہ آپ نے خود حجیتِ خبر واحد کو زیر عمل لاتے ہوئے بہت سے موقعوں پر ایک ہی شخص کو دوسرے علاقے کا مبلغ بنا کر بھیجا یہاں تک کہ امیر لشکر بھی ایک ہی ہوتا ،باقی سب مجاہدین پر اس کی بات کی اطاعت واجب ہوتی تھی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : لما بعث النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم معاذ بن جبل إلىٰ نحو أهل اليمن قال له: (( إنك تقدم علىٰ قوم من أهل الكتاب فليكن أوّل ما تدعوهم إلىٰ أن يوحّدوا اللّٰه تعالىٰ، فإذا عرفوا ذلك فأخبرهم أن اللّٰه فرض عليهم خمس صلوات في يومهم وليلتهم، فإذا صلّوا فأخبرهم أنّ اللّٰه افترض عليهم زكاة أموالهم تؤخذ من غنيهم فترد علىٰ فقيرهم،