کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 58
لکفى[1] ’’متابعت کے کئی مراتب ہیں : اگر خود راوی کو یہ متابعت حاصل ہو جائے تو یہ متابعتِ تامہ ہے، اور اگر اس کے شیخ کو حاصل ہو تو یہ متابعتِ قاصرہ ہے۔ اور اس سے تقویت مقصود ہوتی ہے۔ متابعتِ تامہ کی مثال جیسے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے (اپنی کتاب)’الامّ‘ میں مالک سے روایت کیا، اُنہوں نے عبداللہ بن دینار سے، اُنہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہینہ اُنتیس دن کا ہوتا ہے، اس لئے روزہ نہ رکھو جب تک تم ہلال نہ دیکھ لو، اور نہ تم افطار کرو جب تک کہ تم اس (ہلال) کو نہ دیکھ لو۔ پس اگر تم پر اَبر کی وجہ سے پوشیدہ ہو جائے تو تم تیس دن پورے کرو۔‘‘ ایک قوم کا خیال تھا کہ اس حدیث کو انہی لفظوں کے ساتھ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے میں متفرد ہیں ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اس (حدیث) کو غرائبِ شافعی میں شمار کیا، کیونکہ امام مالک کے باقی شاگردوں نے اس حدیث کو اس سند کے ساتھ ان لفظوں (( فَاِنْ غمّ علیکم فاقدروا له)) ’’پس اگر ابر کی وجہ سے تم پر ہلال پوشیدہ ہو جائے تو تم اس کے لئے اندازہ لگا لو۔‘‘ کے ساتھ روایت کیا، لیکن ہم نے شافعی کا ایک مُتابِع پا لیا، اور وہ عبداللہ بن مسلمہ قعنبی ہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اُن سے اور انہوں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ایسے ہی (( فإن غمّ علیکم فأکملوا العدة ثلاثین)) روایت کیا، اور یہ متابعتِ تامّہ ہے۔ نیز ہم نے ان کے لئے متابعتِ قاصرہ بھی پا لی جو کہ صحیح ابن خزیمہ میں عاصم بن محمد کی روایت ہے۔ اُنہوں نے اپنے والد محمد بن زید سے، انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمر سے ((فکمّلوا ثلٰثین)) لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور صحیح مسلم میں عبیداللہ بن عمر سے، اُنہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر سے (( فاقدروا ثلثین)) لفظوں کے ساتھ روایت کیا۔ اور اس متابعت میں ، خواہ یہ تامّہ ہو یا قاصرہ، الفاظ پر ہی انحصار نہیں ہوتا بلکہ اگر معنوی متابعت بھی پائی جائے تو کافی ہے۔‘‘ ڈاکٹر دامانوی صاحب نے جو حدیث عبداللہ بن صالح کی روایت سے نقل کی ہے اس میں زیر
[1] حافظ ابن حجر عسقلانی: نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر: فاروقی کتب خانہ، ملتان، س.ن: ص ۵۲، ۵۳