کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 55
کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا، اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا انکار کیا کہ لیث نے ابن ابی ذئب سے کچھ سنا ہے۔احمد بن صالح مصری نے کہا کہ ابو صالح (عبداللہ بن صالح) نے ایک رجسٹر نکالا جس کا اوپر کا حصہ ضائع ہو چکا تھا اور یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ یہ حدیث کس کی ہے؟ عبداللہ بن صالح سے کہا گیا کہ یہ ابن ابی ذئب کی حدیث ہے، تو اس نے اس کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کر دیا۔ احمد نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ عبداللہ بن صالح کے سوا کسی نے اس حدیث کو لیث کے واسطہ سے ابن ابی ذئب سے روایت کیا ہو۔ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : قال صالح بن محمد: کان ابن معین یوثقه، و عندي انه کان یکذب في الحدیث، و قال ابن المدیني: ضربت على حدیثه، وما اَرْوِی عنه شیئًا، وقال أحمد بن صالح: متهم لیس بشيء، و قال النسائي: لیس بثقةٍ، و قال سعید البرذعي: قلتُ لأبي زرعة أبو صالح کاتب اللیث فضحك، وقال ذاك رجل حسن الحدیث[1] صالح بن محمد نے کہا کہ یحییٰ بن معین عبداللہ بن صالح کو ثقہ قرار دیتے تھے۔ میرے ہاں یہ ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ کہا کرتے تھے۔ ابن مدینی نے کہا کہ میں اس کی روایت کو دفع کرتا ہوں اور میں اس سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ہوں ؛ اور احمد بن صالح نے کہا کہ وہ متہم ہے اور وہ کوئی چیز نہیں ؛ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ ثقہ نہیں ہے؛ سعید برذعی نے کہا کہ میں نے ابوزرعہ سے کہا کہ لیث کا کاتب ابوصالح کیسا ہے؟ تو آپ ہنس پڑے اور کہا کہ وہ شخص اچھی حدیث والا ہے۔ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : قال ابن عدي: هو عندي مستقیم الحدیث إلا انه یقع في حدیثه في أسانیده و متونه غلط ولا یتعمد الکذب[2]
[1] حافظ ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب: ۳/170،169 [2] ایضًا:۳/۱۶۹،170