کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 54
سمع من جدّی حدیثه [1] میں نے عبدالملک بن شعیب بن سعد سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ ابو صالح ثقہ مامون ہے، اس نے میرے دادا سے حدیث سنی ہے۔ لیکن زیادہ تر محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : عبداللّٰه بن صالح کاتب اللیثِ کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره ولیس بشيء[2] لیث بن سعد کا کاتب عبداللہ بن صالح شروع شروع میں حدیث سے تمسّک رکھنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ ) میں خرابی پیدا ہو گئی اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال عبد اللّٰه بن أحمد: سالتُ أبي عنه فقال کان أوّل أمره متماسکًا ثم فسد بآخره، و لیس هو بشيء. قال وسمعت أبي ذکره یومًا فذمّه، وکرهه، و قال: إنه روي عن اللیث عن ابن أبي ذئب وأنکر أن یکون اللیث سمع من ابن أبي ذئب، وقال أحمد بن صالح المصري: أخرج أبو صالح درجًا قد ذهب أعلاه وَلَمْ یُدْرَ حدیث من هو؟ فقیل له: هذا حدیث ابن أبي ذئب، فرواه عن اللیث عن ابن أبي ذئب، قال أحمد ولا أعلم أحدًا روٰى عن اللیث عن ابن أبي ذئب إلا أبا صالح [3] امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے عبداللہ نے کہا: میں نے اپنے ابّا جی سے اس (عبداللہ بن صالح) کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: کہ شروع شروع میں وہ (حدیث سے) تمسّک کرنے والا تھا، پھر آخر میں اس (کے حافظہ) میں خرابی پیدا ہو گئی، اور وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ ایک دن میں نے اپنے والد کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا۔ آپ نے اس کی مذمّت کی اور اس سے کراہت کی، اور فرمایا کہ اس نے لیث
[1] حافظ ابن حجر عسقلانی،تہذیب التہذیب: دار احیاء التراث العربی، بیروت: ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء: ۳/۱۶۸ [2] ایضًا: ص ۳/۱۶۸؛ امام احمد بن حنبل: کتاب العلل و معرفۃ الرجال: المکتب الاسلامی، بیروت،۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ء،ص ۳/۲۱۲ [3] تہذیب التہذیب: دار احیاء التراث العربی، بیروت: ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء:ص ۳/۱۶9