کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 53
کردہ ترجمہ سے سیدنا معاویہ کے قسطنطنیہ میں موجود ہونے کا مغالطہ پڑتا ہے، لیکن صحیح ترجمہ سے یہ مغالطہ نہیں پڑتا۔ مزید تعجب یہ ہے کہ مولانا دامانوی صاحب نے عبداللہ بن صالح کی ضعیف حدیث کی متابعت میں ایک صحیح حدیث (جس کا ترجمہ اوپر پیش کیا گیا) مسند احمد سے پیش کی، جس کا متن (لفظًا یا معنیً) کسی طرح بھی باہم مطابقت نہیں رکھتا۔ دونوں حدیثوں کے متعلقہ الفاظ کا تقابل ضعیف حدیث کے الفاظ: "سمعتُه، في خلافة معاویة بالقسطنطینیة" جبکہ صحیح حدیث کے الفاظ: "سمعتُ أبا ثعلبة الخشنیَّ یقول وهو بالفسطاط في خلافة معاویة" ہیں ۔’ قسطنطنیہ‘اور ’ فسطاط‘میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ لہٰذا متابعت کا قاعدہ اس پر لاگو نہیں ہوتا۔بلکہ یہاں ’المنکر‘اور’المعروف‘کاقاعدہ جاری ہوگا کیوں کہ ضعیف راوی نے ثقہ کی مخالفت کی ہے۔ ضعیف حدیث کا متفرد راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح ڈاکٹر دامانوی صاحب نے حضرت معاویہ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کے ایک راوی ابو صالح عبداللہ بن صالح کے بارے میں خود دامانوی صاحب، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’وہ صَدوق ہیں ، بہت غلطیاں کرنے والے ہیں ...الخ‘‘[1] ابو صالح عبداللہ بن صالح کا حال ملاحظہ فرمائیے: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عبداللّٰہ بن صالح بن محمد بن مسلم جہنی قبیلہ جہینہ کا آزاد کردہ غلام ابو صالح مصری ،لیث (بن سعد) کا کاتب رہا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تعدیل سے متعلق اگرچہ یہ الفاظ نقل کئے: سمعتُ عبد الملك بن شعیب بن اللیث یقول: أبو صالح ثقة مأمون قد
[1] ماہنامہ’محدث‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۶۰