کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 49
میں شام واقع ہے۔‘‘[1] 16. مدینہ قیصر یعنی قسطنطنیہ (استنبول): مدینہ قیصر سے مراد قسطنطنیہ ہے۔یہ ۱۴۵۳ء سے ۱۹۲۳ء تک سلطنتِ عثمانیہ (خلافتِ عثمانیہ) کا دارالحکومت رہا۔ ترکوں سے پہلے رومیوں کا یہ دارالحکومتConstantinopolisیعنی’شہر قسطنطین‘کہلاتا تھا۔ کیونکہ قیصر روم قسطنطین اعظم نے۳۳۰ء میں اسے یونانی شہر بیزنطیم (Byzantium) کی جگہ آباد کیا تھا جس کی بنیاد ساتویں صدی ق م میں رکھی گئی تھی۔ [2] یاقوت حموی (متوفی ۶۲۶ھ) نے لکھا ہے کہ قسطنطین اعظم نے اسے دارالحکومت بنا کر اس کا نام قسطنطنیہ (عربی میں قسطنطینية) رکھا جسے آج کل اِصْطنبول کہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر پہلے سے مسلمانوں میں ’اصطنبول‘ یا ’استنبول‘کے طور پر معروف تھا۔[3] فتح قسطنطنیہ: سلطان محمد فاتح (۸۵۵ھ تا۸۸۶ھ) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ۲۰/جمادی الاولیٰ ۸۵۷ھ/۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کو قسطنطنیہ فتح کرنے میں الحمد للہ کامیاب ہو گئے اورسلطان محمد فاتح نے صوتی اور معنوی مناسبت کے باعث ’استنبول‘کو ’اسلامبول‘کا نام دیا۔[4] 17. مَضیق : لغۃً مَضِیْق، ضَیْقٌ سے ظرف کا صیغہ ہے، اور یہ تنگ جگہ کا معنیٰ دیتا ہے۔ جغرافیہ کی اصطلاح میں یہ ’آبنائے‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ آبنائے: پانی کے اس تنگ قطعے کو کہتے ہیں جو دو سمندروں کو ملائے۔ خلیج: سمندر کے اس تنگ حصے کو کہتے ہیں جو دور تک خشکی کے اندر چلا گیا ہو۔ [5] اس سے ثابت ہوا کہ آبنائے اور خلیج میں تفاوت و تضاد پایا جاتا ہے۔ درّۂ دانیال اور آبنائے باسفورس: یہ (دونوں ) یورپی ترکی کو ایشیائی ترکی سے الگ کرتی ہیں ۔
[1] احمد عادل کمال: اطلس فتوحاتِ اسلامیہ: دارالسلام، لاہور: ۱۴۲۸ھ، ص ۱۸۰ [2] ایضاً [3] اُردو دائرہ معارف اسلامیہ دانش گاہِ پنجاب لاہور:۱۹۸۰ء، ص ۱/۲۵۹ بحوالہ مُعجم البُلْدَان:۴/۳۴۷ [4] اُردو دائرہ معارف اسلامیہ دانش گاہِ پنجاب لاہور:۱۹۸۰ء، ص ۱/۲۵۹ بحوالہ مُعجم البُلْدَان:۴/۳۴۷ [5] بیبا سنگھ بی اے: جدید آسان اٹلس: انڈین بک ڈپو، بیرون موری گیٹ، لاہور: سن ندارد: ص ۴