کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 47
مقبوضات) پر بہت سے حملے کئے اور کئی بار آپ نے مختلف سالاروں کے تحت فوج بھیجی، لیکن جن حملوں کا مذکورہ بالا سطور میں جناب مولانا علی زئی صاحب نے تذکرہ کیا ہے ان میں سے کوئی لشکر قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے بڑی فوج دے کر سفیان بن عوف کو بھیجا، لیکن وہ بھی قسطنطنیہ تک نہیں پہنچ سکے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے (یزید) کے بارے میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال سعید بن عبدالعزیز لما قُتل عثمان و وقع الاختلاف لم یکن للناس غزو حتی اجتمعوا علىٰ معاویة فأغزاهم مراتٍ ثم اغز ابنه في جماعة من الصحابه برّا وبحرًا حتى أجاز بهم الخلیج وقاتلوا أهل القسطنطینیة علىٰ بابها ثم قفل[1] سعید بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے اور (مسلمانوں میں ) اختلاف رونما ہو گیا اور لوگوں کے لئے جہاد کا موقع جاتا رہا، یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ پر لوگ مجتمع ہو گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اِن کو غزوات میں بھیجا۔ پھر آپ نے صحابہ کی ایک جماعت میں اپنے بیٹے کو بحر و برّ میں جہاد کرنے کے لئے بھیجا، یہاں تک کہ وہ ان (مجاہدوں ) کو خلیج سے پار لے گیا اور قسطنطنیہ کے دروازے پر اہل قسطنطنیہ سے جنگ کی، پھر واپس پلٹ آیا۔ مذكورہ بالا بحث سے چار مختلف خیالات سامنے آئے: 11. حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کے ہاں : ’’واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔‘‘ 12. حافظ زبیر علی زئی صاحب کے دو قسم کے خیالات سامنے آئے: 1۔اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔ 2۔قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں ، بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملے کا ثبوت ملتا ہے۔‘‘ علی زئی صاحب نے یہاں قائد کا ذکر ہی نہیں کیا۔
[1] سیر اعلام النبلاء: ۳/۱۵۰