کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 46
حملہ کا ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ جسے دامانوی صاحب نے خلیج قسطنطنیہ لکھا ہے یہی مَضِیق قسطنطنیہ ہے۔ فافہم حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کردہ دوسرے اقتباس میں بھی دامانوی صاحب نے ’’خلیج قسطنطنیہ کی جنگ‘‘لکھا، یہ بھی وہی ۳۲ھ کی جنگ ہے۔ اور امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ سے نقل کردہ اقتباس میں بھی قسطنطنیہ کے قریب مضیق کا واقعہ لکھا ہے نہ کہ یہ قسطنطنیہ پر حملہ ہے۔ ان تینوں اقتباسات میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے مولانا دامانوی صاحب نے اپنے الفاظ میں لکھ دیا: ’’لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘لیکن اس کی دلیل کیا ہے؟ یاد رہے کہ قسطنطنیہ اور خلیج / مضیق قسطنطنیہ دو علیحدہ مقامات ہیں ، دونوں کو ایک ہی باور کرنا درست نہیں ۔ اب مولانا دامانوی صاحب کے اُستاد موصوف (محترم جناب مولانا علی زئی) کے حضرت معاویہ کے حملوں کے بارے میں دلائل ملاحظہ فرمائیے! آپ لکھتے ہیں : 1۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی۔ [1] 2۔ یزید بن معاویہ کے آخری حملہ سے پہلے قسطنطنیہ پر سابقہ حملوں کے علاوہ ایک اور حملہ بھی ہوا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں : واستعمل معاویة سفیان بن عوف على الصوائف وکان یعظمه[2] اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے سفیان بن عوف کو قسطنطنیہ پر صیفی حملوں میں امیر بنایا اور آپ ان کی تعظیم کرتے تھے۔ وفي 28هـ جهّز معاویة جیشا عظیمًا یفتح قسطنطینیة وکان على الجیش سفیان بن عوف (ج ۲، ص ۱۱۴) اور ۴۸ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امیر سفیان بن عوف تھے۔[3] قارئین توجہ فرمائیں ! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ نے سرزمین روم (یعنی رومی
[1] البدایہ والنہایہ: ج ۸/ ص ۱۳۳ [2] الاصابۃ:ج ۲/ص ۵۶ [3] ماہنامہ’الحدیث‘، حضرو: شمارہ ۶/ ص ۸،۹... بحوالہ ماہنامہ محدث، لاہور: جنوری 2010ء ،ص 71