کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 45
کے ذمہ ہے۔ 7. ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی صاحب نے پہلے لشکر کا قائد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرار دیا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی گئی کہ یہ معلوم کیا جائے کہ قسطنطنیہ پر کتنے حملے کئے گئے اور ان حملوں میں سب سے پہلا حملہ کس نے کیا تھا۔‘‘[1] کیا قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا؟ دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں : ’’قسطنطنیہ پر پہلا حملہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اگرچہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو’اوّل جیش‘ کا مصداق قرار دیا ہے، لیکن وہ خود ہی دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : 8. اور ۳۲ھ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘[2] 9. حافظ موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’کہتے ہیں کہ خلیج قسطنطنیہ کی جنگ سیدنا معاویہ کی امارت میں ۳۲ھ میں ہوئی، وہ خود اس سال لوگوں پر امیر تھے۔‘‘[3] 10. حافظ ذہبی لکھتے ہیں : "فیها کانت وقعة المضیق بالقرب من قسطنطینیة وأمیرها معاویة"[4]’’اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘[5] ناقدانہ جائزہ: دامانوی صاحب نے مندرجہ بالا تین اقتباس نقل کئے ہیں : پہلا اور دوسرا اقتباس البدایہ والنہایہ سے اور تیسرا اقتباس حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ اسلام سے نقل کیا ہے۔ دامانوی صاحب کے پیش کردہ اقتباس میں واضح طور پر لکھا موجود ہے کہ ’’۳۲ھ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ یہاں دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر
[1] ماہنامہ ’محدث‘، لاہور:جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۹ [2] البدایہ والنہایہ: ۷/۱۵۹ [3] ایضاً: ج ۸/ ص۱۲۶ [4] تاریخ اسلام از ذہبی، عہد خلفائے راشدین: ص ۳۷۱ [5] ماہنامہ ’محدث‘، لاہور:جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۹،۶۰