کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 44
روایت ذکر کی بلکہ صرف یہی بات ذکرکرکے کہ یزید کے لشکر نے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کی تھی اور بس...‘‘ [1] ناقدانہ جائزہ: وکم من عائبٍ قولاً صحیحًا ... و آفته من الفهم السقیم درج ذیل سطور کے مطالعہ سے قارئین کرام خوب سمجھ سکیں گے غلطی ان حضرات کو لگی ہے یا دامانوی صاحب کو؟ قائدِ جیش سے متعلق بیانات میں تضاد 4. شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے ’’مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ‘‘ کو قرار دیا۔[2] 5. حافظ زبیر علی زئی صاحب نے حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کے جواب کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ ’’درج ذیل کتابوں میں بھی صحیح سند کے ساتھ اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید ہی مذکور ہے۔‘‘[3] چونکہ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ نے ’’مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید‘‘لکھا تھا، اس لئے حافظ زبیر علی زئی نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ ’’اس حملہ آور فوج کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن الولید تھا۔‘‘ 6. اور اسی اشاعت میں حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنے پہلے بیان کے خلاف لکھ دیا کہ ’’تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’قسطنطنیہ پر کئی حملے ہوئے ہیں۔‘‘ آپ نے مزید لکھا کہ ’’بلکہ ان تمام لشکروں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملے کا ثبوت ملتا ہے جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔‘‘[4] کیا ہی خوب تحقیق ہے! اس لشکر کے امیر کون تھے؟ اس کا جواب دینا مولانا علی زئی صاحب
[1] ماہنامہ’ محدث‘، لاہور، جنوری ۲۰۱۰ء : ص ۵۸،۵۹ [2] ہفت روزہ’الاعتصام‘،لاہور: شمارہ ۱۸، ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء [3] ایضاً :ج ۴۹/ ش ۳۵ [4] ہفت روزہ’الاعتصام‘،لاہور: شمارہ ۱۸، ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء