کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 42
۲۷ھ میں قبرص کو فتح کیا اور امّ حرام بھی اُن کے ساتھ تھیں ۔ اُنہوں نے وہیں قبرص میں وفات پائی ، پھر دوسری فوج کا امیر ان کا بیٹا یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھا اور اُمّ حرام نے یزید کی اس فوج کو نہیں پایا اور یہ دلائل نبوت میں سے ایک انتہائی بڑی دلیل ہے۔‘‘[1] 3. حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ اور اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ جہاد ہر امیر کے تحت جائز ہے (چاہے وہ نیک ہویا بد ) اس حدیث میں قیصر کے شہر میں جہاد کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے اور اس جہاد کا امیر یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھا اور یزید تو یزید ہی تھا۔‘‘[2] 4. علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : ’’ قیصر کے شہر(قسطنطنیہ) پر سب سے پہلے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا ،اور ان کے ساتھ سادات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی شریک تھی جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، عبداللہ رضی اللہ عنہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے اور ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اسی غزوہ میں ۵۲ھ میں وفات پائی۔ [3] 5. علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں :’’ یزید بن معاویہ نے بلادِ روم میں جہاد کیا یہاں تک کہ وہ قسطنطنیہ تک جا پہنچے۔‘‘[4] 6. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کرنے والے لشکر کے سپہ سالار یزید تھے اور چوں کہ لشکر معین مقدار کو کہا جاتا ہے، اس لیے فوج کا ہر ہر فرد بشارتِ مغفرت میں شریک ہے، نہ کہ اس کا کوئی فرد تو لعنت میں شریک ہو اور کوئی اس میں سے ظالموں میں شریک ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ یزید اسی حدیث کی بنا پر قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوا تھا۔‘‘[5] مندرجہ بالا چھ محدثین علما کے اقوال جناب ڈاکٹر دامانوی صاحب کے پیش کردہ ہیں ۔ دامانوی صاحب مزید لکھتے ہیں : 1. امام خلیفہ بن خیاط اپنی تاریخ میں ۵۰ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں : ’’اور اسی سن میں یزید بن
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۸/۲۲۹ [2] فتح الباری : ۱۱/۷۷ [3] حاشیہ صحیح بخاری : ج۱/ص ۴۱۰ [4] عمدۃ القاری : ج ۱۴/ ص۱۹۹ [5] منہاج السنۃ : ۲/۲۵۲؛ ماہنامہ’محدث‘،لاہور،۱۰جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۴،۵۵