کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 41
۲۰۱۰ء کو شائع ہونے والا مضمون بعنوان ’کیا یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ فوجِ مغفورلهم کا سپہ سالار تھا؟‘ نظر سے گزرا، جس میں مولانا ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب نے صحیح بخاری کی حدیث : ((أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم))کے صحیح مصداق کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے مسلمانوں کی نیتوں پر حملہ کرتے ہوئے لکھا : ’’منکرین حدیث میں سے محموداحمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کوقرار دیا۔‘‘[1] اور پھر اُن محدثین کے اسماے گرامی اور ان کے دلائل یوں ذکر کیے ہیں : ’’یزید کے قسطنطنیہ والے لشکر میں شرکت کے متعلق علما کرام کی تصریحات ملاحظہ فرمائیں : 1. حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :’’مہلب فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت بیان ہوئی ہے ،اس لیے کہ اُنہوں نے سب سے پہلے سمندری جہاد کیا، اور ان کے بیٹے یزید کی بھی منقبت بیان ہوئی ہے کیوں کہ اس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر میں جہاد کیا۔‘‘[2]مہلب بن احمد بن ابی صفره اندلسی کی وفات ۴۳۵ھ میں ہوئی۔[3]اور مذکورہ غزوہ ۵۲ھ میں ہوا تھا ، یاد رہے کہ مہلب نے اپنے دعویٰ پر کوئی دلیل بیان نہیں کی۔ 2. حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : ’’اور یزید پہلا شخص ہے جس نے یعقوب بن سفیان کے قول کے مطابق ۴۹ھ میں قسطنطنیہ کی جنگ کی اور خلیفہ بن خیاط نے ۵۰ھ بیان کیا ہے۔ پھر اس نے سرزمین روم سے اس غزوہ سے واپس آنے کے بعد اس سال لوگوں کو حج کروایا اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’اُمّت کا وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر حملہ کرے گا، وہ مغفور ہے۔‘‘ اور وہ دوسری فوج تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ حرام رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے خواب میں دیکھا تھا اور اُمّ حرام نے کہا: اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کردے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اوّلین میں سے ہے یعنی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل ہوگی جب وہ قبرص میں جنگ کریں گے ، پس سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں
[1] ماہنامہ’محدث‘،لاہور،۱۰جنوری ۲۰۱۰ء، ص۴۹ [2] فتح الباری :۶/۱۰۲ [3] سیراعلام النبلاء: ۱۳/۳۷۷