کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 4
وفاقی شرعی عدالت کوبھیج دیا جہاں کے 122/ماہ گزرنے کے باوجود شنوائی شروع ہی نہیں ہوئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل، مذہبی جماعتوں اور علما نے اِس پر کسی اضطراب کا اظہار نہیں کیا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج تو کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں مگران کایہ تباہ کن فیصلہ پوری آب و تاب سے 10 برس کا عرصہ گزرنےکے باوجودبرقرار ہے۔ ان حالات میں عام مسلمان مایوسی کا شکار ہے۔ پاکستان میں 96 فیصد کھاتےسودی بینکوں کے پاس ہیں جبکہ صرف 4/فیصد کھاتے اسلامی بینکوں کے پاس ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈھائی برس سے زیادہ عرصہ گزرنےکے باوجود قرضوں کی معافی او راسٹیٹ بینک کے سرکلر 29 مؤرخہ 15/اپریل 2002ء کے ضمن میں فیصلےنہ آنے سے ان قرضوں کی وصولی کا امکان تقریباً ختم ہوگیا ہے جس سے کئی سو ارب روپے کا جھٹکا لگے گا۔وکلا برادری اور ریٹائرڈ جج صاحبان بھی اس معاملے میں خاموش ہیں ۔ یہی نہیں 10/اگست 2012ء کو اسٹیٹ بینک نے اپنی خود مختاری سے دستبردار ہوکر وزارتِ خزانہ کےایک ذیلی ادارےکا روپ اپنایا اور پالیسی ریٹ کو 12 فیصد سے کم کرکے 5ء10 فیصد کردیا جس سے حکومت کو ملکی قرضوں پرسود کی ادائیگی کی مد میں کئی ارب روپے ماہانہ کی بچت ہوگی مگر اس کےنتیجے میں سودی او راسلامی بینک او رنیشنل سیونگ سنٹرز میعادی کھاتے داروں اور سرمایہ کاروں کو دی جانے والی شرح منافع میں کمی کا اعلان کردیں گے۔ شرح سُود میں کمی کے بجائے اسٹیٹ بینک کوبینکنگ اسپریڈ میں 350 پوائنٹس کمی کا اعلان کرنا چاہیے تھا تاکہ بینکوں کےکھاتےداروں کو دی جانے والی شرح 250 پوائنٹس اضافہ اور قرضوں پر مارک اَپ کی شرح میں کمی ممکن ہوتی۔ اب ضرورت اس امر کی ہےکہ وہ چند علما جو مروجہ اسلامی بینکاری کی پشت پر ہیں فتویٰ جاری کریں کہ موجودہ نظام /متوازی بینکاری غیراسلامی ہے اور اگر سودی نظام کے تحت چھ ماہ بعد ڈپازٹس لینے اور ان کی تجدید کرنے پر پابندی نہ لگائی گئی تو وہ موجودہ اسلامی نظام بینکاری کی حمایت واپس لے لیں گے۔موجودہ اسلامی نظام بینکاری کو شریعت کی روح کےمطابق لانے کے لیے ان جید علما سے جنہوں نے28/اگست 2008ء کو متفقہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ مروّجہ اسلامی نظام بینکاری غیر اسلامی ہے اور اسلامی ذہن رکھنے والے بینکاری کے ماہرین کی مشاورت سےبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں اس نظام میں لانا ہوں گی۔ (شاہد حسن صدیقی)