کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 39
چاہیے اور جو روایت بھی وہ نقل کریں وہ باسند اور صحیح ہو جو محدثین کے اُصول کے مطابق صحیح یا حسن درجہ کو پہنچی ہوئی ہو، کیوں کہ بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے اور وہ شریعت میں کسی دلیل کی حیثیت نہیں رکھتی۔[1] مولانا دامانوی صاحب نے قسطنطنیہ پر چھ حملوں کا ذکر کیا اور پہلا ، دوسرا ،تیسرا حملہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ثابت کیا ہے۔ ہم اس مضمون میں صرف ان تین حملوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے: پس منظر آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے،۱۹۹۷ءمیں جامعہ لاہور اسلامیہ کے شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ "أوّل جیش من أمتي یغزون مدینة قیصر مغفور لهم" اس حدیث کے مطابق جیشِ مغفور کا پہلا کمانڈر کون ہے؟ اس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ ’’ اس حدیث میں اوّلیت کے اعتبار سے تو کسی شخص کا تعین نہیں ، البتہ شارح صحیح بخاری المهلّب رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مصداق یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے ، لیکن واقعاتی طور پر مدینہ قیصر پر پہلے حملہ آور ہونے والے لشکر کا قائد عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید تھا ، جس کا تذکرہ سنن ابوداؤد میں موجود ہے ، اس کے باوجود کئی مؤرخین نے اس کا مصداق یزید بن معاویہ کو سمجھا ہے۔‘‘[2] اس کے جواب میں راقم الحروف نے ’’قسطنطنیہ پر حملہ آور ہونے والے پہلے لشکر کی قیادت‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر الاعتصام کی اسی جلد ۴۹ کے شمارہ نمبر ۳۱،۳۲ میں شائع کرایا ، جس میں اصح الکتب صحیح بخاری کی حدیث کو بنیاد بناکر اوّل لشکر کا قائد یزید بن معاویہ کو ثابت کیا۔اس مضمون کے جواب میں مولانا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے ’’حدیثِ قسطنطنیہ اور یزید‘‘کے عنوان سے ڈیڑھ صفحہ پر مشتمل ایک مضمون لکھا جو الاعتصام کی جلد ۴۹ کے شمارہ ۳۵ میں شائع ہوا۔موصوف کے اس مضمون کے جواب میں راقم الحروف نے ’’حدیثِ قسطنطنیہ اور
[1] ماہنامہ’محدث ‘،لاہور: جنوری ۲۰۱۰ء، ص ۵۰،۵۱ [2] ہفت روزہ’الاعتصام‘، لاہور،شمارہ ۱۸/ ج ۴۹، ۲۲ مئی ۱۹۹۷ء بمطابق ۸ محرم الحرام ۱۴۱۸ھ