کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 37
جواب: کسی مخصوص مقام پر نکاح کے انعقاد کے بارے میں ، میرے علم میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ مساجد یا دیگر مقامات پر نکاح میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم میرے علم میں مساجد میں نکاح کا التزام کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ شرعی طورپر یہ امر واضح ہے کہ کتاب وسنّت میں مساجد میں نکاح منعقد کرنے کی پختہ روایت نہیں ملتی۔ تاہم فی زمانہ برصغیر پاک وہند میں نکاح کے ساتھ شان وشوکت، نمائش واسراف، بینڈ باجے اور بے جا رسومات کی جو متعدد عادات ورواجات منسلک ہوچکے ہیں تو مساجد میں نکاح منعقد کرکے ان غیرشرعی رسومات کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے، کیونکہ مساجد کا ماحول ایسی بہت سے باتوں کا اپنی پاکیزگی کی بنا پر متحمل نہیں ہوسکتا۔عقدِ نکاح سے قبل جو خطبہ ارشاد فرمایا جاتا ہے ، اس کی تاثیر کے لئے بھی مبارک اور باوقار ماحول درکار ہے، تب ہی اس کے اثرات اور اس موقع پر کی جانے والی دعا کی تاثیر پیدا ہوسکتی ہے۔ ان مقاصد کے پیش نظر، جن میں سادگی، رسوم ورواج کا خاتمہ اور ہندوانہ عادات کی بیخ کنی وغیرہ شامل ہیں ، مساجد میں نکاح کو اختیارکیا جاسکتا ہے، تاہم یہ بعض نیک مقاصد کی بنا پر ہی ہے۔ اور اگر لوگ یہ طریقہ اختیار کرلیں کہ نکاح تو مسجد میں کریں اور غیر اسلامی عادات اور شان وشوکت کے لئے شادی کی مستقل تقریبات منعقد کریں تو اس سے یہ اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ چونکہ ان کی پرشکوہ مجالسِ شادی بیاہ کے لئے خطبہ نکاح یا کسی عالم دین کا آکر وہاں وعظ وتلقین کرنااجنبی محسوس ہوتا ہے، اس بنا پر وہ شادی کی تقریب میں اپنے دنیا دارانہ شوق پورے کرتے ہیں اور اس کے دینی پہلو کے لئے مسجد میں ایک رسمی مجلس کرکے، جس میں چند ایک رشتہ دار حاضر ہوجاتے ہیں ، نکاح کے شرعی پہلو سے عہدہ برا ہوجاتے ہیں ۔ جن مقاصد کے لئے مساجد میں نکاح کو فروغ دیا جارہا ہے ، اگر وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے بلکہ اس سے اسلام اور اہل اسلام کی بے توقیری سامنے آرہی ہو تو پھر مساجد میں نکاح کے تکلف کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مساجد میں نکاح منعقد ہوسکتا ہے اور نیک مقاصد کے لئے اس کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک صرف اِس کے مبارک مقام ہونے اور اس سے برکت لینے کا تعلق ہے تو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ادوارِصحابہ وتابعین میں مساجد سے اس تبرک کی کوئی مستند روایت موجود نہیں ہے۔