کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 36
’’مساجداسی کے لئے ہیں ، جس لئے انہیں بنایا گیا ہے۔‘‘ 4. مساجد میں مردوزن کا اختلاط بالکل منع ہے۔ اسی طرح مساجد میں فیشن زدہ خواتین کا اپنے زرق برق یا شرم وحیا سے عاری ملبوسات میں آنا، مساجد میں یادگاری تصاویر وغیرہ لینا ، یہ چیزیں بالکل غیرشرعی ہیں ، ان سے کلی اجتناب ہونا چاہئے۔ 5. مساجد میں موسیقی، طبلے، گانے بجانے ، گانوں اور عروسی نظموں سے بھی پرہیز ہونا چاہئے۔ الغرض یاد رہنا چاہئے کہ نکاح کی تقریبات کے ذریعے کسی طرح بھی مسجد کا وقار واحترام متاثر نہ ہونے پائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں ، اللہ کی عبادت کے لئے بنائے گئے ہیں ۔ ان کا احترام شعائر اللہ ہونے کے ناطے ہر مسلم پر فرض ہے۔ جہاں تک مساجد میں شادی کے تقریبات کا تعلق ہے تو اس کا مقصد، مساجد کے مقام ومرتبہ کو لوگوں کو ذہنوں میں راسخ کرنااور لوگوں کا مساجد سے تعلق کو پختہ کرنا وغیرہ ہے۔ یہ مقاصد نیک ہیں ، او ران مقاصد کو دیگر اچھے ذرائع سے حاصل کرنے کی بھی جدوجہد کرنا چاہئے۔ شیخ محمدصالح العثیمین سے پوچھا گیا کہ کیا مساجد میں نکاح کرنا عیسائیوں سے مشابہت رکھتا ہے کہ وہ بھی اپنے گرجاؤں میں نکاح کی تقریبات منعقد کرتے ہیں ۔ جواب: نہیں ، ایسی بات نہیں ہے۔ حتی کہ علمائے شریعت نے مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دیا ہے اور ان کی یہ دلیل ہے: إن أحبّ البقاع إلى اللّٰه مساجدها ’’روئے ارض پر سب سے مبارک قطعہ ارضی اللہ کی مساجد ہیں ۔‘‘ سو اللہ کے گھر ہونے کے ناطے مساجد میں نکاح کرناایک بابرکت فعل ہونا چاہئے۔ تاہم یہ ایک منطقی توجیہ ہی ہے، ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ میں ایسے نہیں ملتا کہ آپ بطورِ خاص مسجد میں تشریف لے جاتے ہوں اور وہاں نکاح منعقد کرنے کی جستجو کرتے ہوں ۔ جب سنتِ مطہرہ میں ایسا منقول نہیں ہے تو اس کو روزمرہ عادت بنا لینا بھی مناسب نہیں ۔ شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ مساجد میں نکاح کے بارے میں آپ کا فتویٰ کیا ہے، ہم یہ کام اس مقصد سے کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے نئے جوڑے اور دونوں خاندانوں کو اللہ کی رحمت او ربرکت حاصل ہوگی۔