کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 35
’’ایک خاتون نے کہا کہ میں اپنی ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کرنے کے لئے آئی ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا ۔ اسی اثنا میں ایک صحابی رسول کھڑے ہوئے اور نبی کریم سے مخاطب ہوئے کہ اگر آپ کو اس میں کوئی حاجت نہیں تو آپ اس خاتون کا نکاح مجھ سے فرما دیجئے۔ تو نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کی طرف سے اس عورت کا حق مہر قرآنِ کریم کی تعلیم کو قرار دے کر، ان دونوں کا نکاح کرا دیا۔‘‘[1] اس حدیثِ مبارکہ کے بارے میں حافظ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح فتح البار ی میں لکھتے ہیں کہ خاتون کی آمد کا یہ واقعہ مسجد میں پیش آیاتھا جیسا کہ امام سفیان ثوری کی روایت میں اس کی تصریح موجود ہے۔[2] اِس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ مساجد میں نکاح منعقد کیا جاسکتا ہے اور اس کا شریعت اسلامیہ میں جواز موجود ہے۔تاہم واضح رہنا چاہئے کہ دورِ نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بہت سے نکاح ہوئے ، خلفاے راشدین کے اَدوار میں بھی بہت سے نکاح منعقد ہوتے رہے لیکن مساجد میں نکاح کی مستند روایت ان اَدوار میں شاذ ونادر ہی ملتی ہے۔چنانچہ مساجد میں نکاح کے لئے درج ذیل ضوابط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: 1. مساجد میں یہ نکاح روزمرّہ معمول نہیں بننے چاہئیں ، اور نہ ہی اس کو مسجد میں کوئی خاص باعثِ فضیلت سمجھنا چاہئے۔ 2. مساجد کے احکام، اور اس کے شرعی آداب بہر طور ملحوظ رکھے جانے چاہئیں ۔ چنانچہ مساجد میں آوازیں بلند کرنا، اور مساجد کو کھانے پینے اور حلویات سے آلودہ کردینا بالکل درست نہیں ہے، مسجد کی صفائی لازماً برقرار رہنی چاہئے۔ 3. مساجد میں آنے والے دولہا کو سادگی اور وقار اختیار کرنا چاہئے، کیونکہ مساجد تفریح کے مراکز نہیں اور ان میں وقار قائم رہنا چاہئے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اوپر گزرا کہ
[1] صحیح بخاری: 5149 [2] فتح الباری: 9/206