کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 34
ہے جیساکہ فقہاے حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور بعض حنابلہ کے ہاں مساجد میں نکاح کا انعقاد بہتر عمل ہے۔ تاہم نکاح سے مراد یہاں عقدِ نکاح ہی ہے اور عقد ایجاب وقبول کا نام ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ودیگراہل علم کا بھی موقف یہی ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا استدلال اُمّ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی روایت کیا گیا ہے: (( أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد)) [1] نکاح کا اعلان کیا کرو اور اس کو مساجد میں منعقد کرو۔ واضح رہے کہ اس حدیث کا آخری جملہ مستند طورپر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ نہیں ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تلخیص الحبیر 4/201 میں اس جملہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اوراکثر محدثین کرام کا یہی موقف ہے کہ حتی کہ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس جملہ کو ’منکر‘ قرار دیا ہے۔[2]اس حدیث کے بعض راویوں کو حافظ ذہبی نے تلخیص العلل المتناہیہ میں اور حافظ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ سعودی عرب کے مشہور مفتی وعالم شیخ محمد صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ائمہ فقہا اور سلف کا مساجد میں نکاح کو مستحب قرار دینے کی وجہ دراصل اس مبارک جگہ کی برکت سے فائدہ اُٹھانے کا نظریہ ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث بھی مل جائے تو بہت بہتر ہے تاہم میں اس بارے میں کسی صحیح حدیث کو نہیں جانتا۔‘‘[3] تاہم جمہور فقہاے کرام کا مساجد میں نکاح کا موقف صرف مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر نہیں بلکہ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں ایک اور مشہور حدیث بھی آتی ہے جو سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
[1] جامع ترمذى:1089 [2] سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ : 982 [3] الشرح الممتع: 5/132