کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 33
درست نہیں ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے شخص کے لئے یہ کہنا کہ تمہیں وہ اعلان کرنا چیز نہ ملے، اس سے تہدید وتوبیخ کا بھی پتہ چلتا ہے۔‘‘[1] ایک بار سیدنا عمر بن خطاب نے ایک شخص کو مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا سنا تو اس سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’یہ بلند آواز مسجد میں کیسی؟ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کہاں کھڑے ہو۔‘‘[2] ایسے ہی سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تو آپ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کررہے ہیں تو آپ نے پردہ ہٹا کر اُنہیں فرمایا: (( ألا إن كلكم مناجٍ ربه فلا یؤذین بعضكم بعضًا ولا یرفع بعضكم علىٰ بعض في القراءة أو قال في الصلاة)) [3] تم میں سے ہرشخص ربِّ کریم سے مناجات کرتا ہے۔ کوئی شخص دوسرے کے لئے باعث اذیتِ بنے اور نہ ہی تلاوتِ قرآن یا نماز میں اپنی آواز بلند کرے۔ حتیٰ کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مساجد میں بلند آواز اختیار کرنے والوں کو تعزیر یعنی سزا دینے کا بھی ارادہ فرمایا۔ مذکورہ بالا آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد کے احکام دیگر عمارتوں سے مختلف ہیں ۔ اور ایک دین دار مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ شعائر اللہ کا احترام کرے اور بلاشبہ مساجد شعائر اللہ ہی ہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ 32۝﴾[4] ’’جو شعائر اللہ کا احترام کرے تو ایسا دلوں میں اللہ سے تقویٰ کی بنا پر ہے۔‘‘ مذکورہ بالا اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے واضح رہنا چاہئے کہ مساجد میں نکاح کرنا اچھا عمل
[1] شرح النووی علی مسلم: 2/215 [2] تفسیر قرطبی: 12/269 [3] سنن ابی داؤد: 1332 [4] سورة الحج: 32