کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 30
’’تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا اس مٹى سے مسح كرو ۔‘‘ شریعتِ اسلامیہ کے اس حكم کوبیان كرتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَ لِيُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ 6 ۝﴾ [1] ’’ اللہ تعالىٰ تم پر كوئى تنگى نہیں كرنا چاہتا، لیكن تمہیں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتیں مكمل كرنا چاہتا ہے تا كہ تم شكر ادا كرو۔‘‘ اورسیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں : ’’غزوہ ذاتِ سلاسل کی شدید سرد رات میں مجھے احتلام ہوگیا۔ اس لیے مجھے یہ خدشہ پیدا ہوا كہ اگر میں نے غسل كیا تو ہلاك ہو جاؤں گا۔ اس لیے میں نے تیمّم كر كے اپنے ساتھیوں كو فجر كى نماز پڑھا دى۔ چنانچہ اُنہوں نے اس واقعہ كا نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كے سامنے ذكر كیا تو رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اے عمرو! كیا آپ نے جنابت كى حالت میں ہى اپنے ساتھیوں كو نماز پڑھائى تھى ؟ میں نے رسول كریم صلى اللہ علیہ وسلم كو غسل میں مانع امركا بتایا اور كہنے لگا كہ میں نے اللہ تعالى كا فرمان سنا ہے:﴿ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا 29۝﴾ ’’اور تم اپنى جانوں كو ہلاك نہ كرو، یقینا اللہ تعالىٰ تم پر رحم كرنے والا ہے۔‘‘چنانچہ رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم مسكرانے لگے اور كچھ بھى نہ فرمایا۔‘‘[2] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں : ’’ اس حدیث میں اس كا جواز پایا جاتا ہے كہ سردى وغیرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تیمّم كیا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تیمم كرنے والا شخص وضو كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے۔‘‘[3]
[1] دیكھیں: تبصرۃ الحكام: 1/26 اور الموسوعة الفقهية : 33/295 [2] سنن ابو داود: 334، علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [3] فتح البارى :1/454