کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 3
اِستحصال بھی کررہے ہیں ۔ اس حقیقت کا اِدراک بھی ضروری ہے کہ اگر آنے والی ناانصافی کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرے بھی تو وہ ناکام رہے گی کیونکہ اُسے اپنی فنانسنگ (قرضوں ) پر لی جانے والی شرحِ منافع بڑھانی پڑے گی جس کے لیے سرمایہ لینے والی بیشتر پارٹیاں تیارنہیں ہوں گی کیونکہ انہیں سُودی بینکوں سے کم شرحِ سُود پر قرضہ دستیاب ہے۔ واضح رہےکہ اسلامی بینک اپنے بچت کھاتے داروں کو اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت 6 فیصد سالانہ شرح منافع دے رہے ہیں جبکہ ملک میں افراطِ زر کی شرح تقریباً 10 فیصد سالانہ ہے یعنی 4 فیصد حقیقی منفی شرحِ منافع جو کہ استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ اب سے چند برس قبل تک علما حضرات کا موقف تھاکہ اسلامی بینکاری کی اصل بنیاد نفع ونقصان کی تقسیم پر قائم ہوگی اور اسلامی بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکہ و مضاربہ پر مبنی ہوگا جبکہ صرف عبوری دور کےلیے بوقتِ ضرورت کچھ دوسرےطریقے مثلاً مرابحہ وغیرہ اختیار کئے جاسکتے ہیں ۔ حیران کن طور پرعبوری دور کالفظ اب عملاً حذف کردیا گیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اسلامی بینک مشارکہ و مضاربہ کے تحت اپنی مجموعی فنانسنگ (قرضوں ) کا صرف 3 فیصد فراہم کررہے ہیں جبکہ پاکستان میں اسلامی بینک اپنے 86 فیصد فنانسنگ مرابحہ اور اجارہ وغیرہ کے تحت کررہے ہیں جہاں حتمی نتیجہ سودی نظام سے مختلف نہیں ہوتا۔ اسلامی بینک سرمایہ لینے والی پارٹی کے کاروبار میں ہونے والےنقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور پہلے سے طے شدہ شرحِ منافع وصول کرلیتے ہیں ۔ سُود پرمبنی معیشت کے ماحول میں اسلامی بینکاری کے تحت فنانسنگ کےطریقوں کو قابل عمل بنانے کے لئےعلما حضرات بہت زیادہ لچک کامظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ اسلامی بینکاری میں جبکہ بہانے بازی کے تصور کو پروان چڑھا دیا گیا ہے۔ اسلامی بینکاری کے فلسفہ میں علما کی منظوری سےبنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں اور شریعت کے مقاصد پس پشت جاچکے ہیں ۔ پاکستان میں سودی بینکوں کے اسلامی بینکاری کےضمن میں کچھ اہم فیصلے ان سودی بینکوں کی انتظامیہ ہی کرتی ہے۔ بدنام زمانہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والی سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ نے 24/جون 2002ء کو اپنی ہی بنچ کے 23/دسمبر 1999ء اور وفاقی شرعی عدالت کے 14/نومبر 1991ء کے سُود کو حرام قرار دینےکے فیصلوں کو کالعدم کرکےمقدمہ از سر نو شنوائی کےلیے