کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 28
جائے تا كہ اس موضوع كے بارے میں واجب كردہ شرعى حكم كو نافذ كیا جا سكے، اور دوسرى عدالتوں سے صرف تنفیذ كى سعى كى جائے۔‘‘ اور اسى اختتامى بیان كے ساتویں بند میں اسلامى ممالك سے باہر دوسرے ممالك كى سول كورٹس میں جارى ہونے والى طلاق كے متعلق درج ہے: ’’جب مرد اپنى بیوى كو شرعى طلاق دے دے تو اس كے لیے ان غیر شرعى عدالتوں سے طلاق توثیق كرانے میں كوئى حرج نہیں ، لیكن جب خاوند اور بیوى كا طلاق كے متعلق آپس میں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعى عدالت نہ ہونے كى صورت میں قانونى كاروائى پورى كرنے كے بعد اسلامى مراكز شرعى عدالت كے قائم مقام ہوں گے۔‘‘ اور شادى كو ختم كرنے كے لیے صرف یہ قانونى كاروائى مكمل كرنے سے ہى شرعى طور پر شادى ختم نہیں ہوگى۔اس لیے جب عورت سول كورٹ سے طلاق حاصل كر لے تو وہ اسلامى مراكز جا كر اس طرح كے معاملات كا فیصلہ كرنے والے اہل علم سے رجوع كرے تا كہ شرعى طور پر اس معاملہ كو پورا كیا جا سكے۔مختلف جگہوں پر اسلامى مراكز ہونے كى وجہ سے اور ان سے رجوع كرنے میں سہولت ہونے كى بنا پر اس سے انحراف نہیں كیا جا سكتا ۔ اس بنا پر آپ كو اپنے علاقے كے اسلامى مركز یعنى اسلامك سینٹر سے رابطہ كرنا چاہیے ،وہ آپ كے اس معاملہ كو دیكھ كر فیصلہ كریں گے۔ سوم:جب عورت كو اپنے خاوند سے پہلى یا دوسرى طلاق ہو جائے اور اس كى عدت گزر جائے تو اس كے لیے اسى خاوند سے نئے مہر كے ساتھ ولى اور گواہوں كى موجودگى میں نیا نكاح كرنا جائز ہے۔لیكن اگر اسے تیسرى طلاق ہو چكى ہو تو خاوند كے لیے اپنى مطلقہ عورت كے ساتھ نكاح كرنا جائز نہیں حتىٰ كہ وہ عورت كسى دوسرے شخص سے بہ رغبت نكاح كرے اور یہ نكاحِ حلالہ نہ ہو، پھر وہ شخص اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو پہلے خاوند كے لیے اس سے نكاح كرنا جائز ہو جائے گا۔واللہ اعلم