کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 27
دوم:جب آپ نے غیر شرعى عدالت كا سہارا لیا اور عدالت نے خاوند كو طلاق دینے كا كہا تو خاوند نے طلاق كے الفاظ بولے یا پھر طلاق كى نیّت سے طلاق كے الفاظ لكھ دیے تو طلاق واقع ہو گئى ہے۔ اور اگر خاوند نے نہ تو طلاق كے الفاظ بولے اور نہ ہى طلاق كى نیت سے طلاق كے الفاظ لكھ كر دیے، بلكہ عدالت نے طلاق كا فیصلہ كر دیا تو كافر جج كى طلاق واقع نہیں ہوتى، کیونکہ فقہاے كرام كا اتفاق ہے كہ قاضى كو مسلمان ہونا چاہیے جو مسلمانوں كے فیصلے كرے۔ بایں وجہ کہ قضا ایك قسم كى ولایت ہے اور كافر شخص كسى مسلمان شخص كا ولى نہیں بن سكتا۔ ابن فرحون رحمۃاللہ علیہ كہتے ہیں کہ قاضى عیاض رحمۃاللہ علیہ كا قول ہے: ’’ جن شروط كے بغیر قضا صحیح نہیں اور نہ ہى ولایت قائم ہو سكتى ہے، وہ دس شرطیں ہیں : اسلام،عقل، مرد، آزادى، بلوغت، عادل ہونا، علم، ایك ہونا، سماعت وبصارت والا ہونا اور گونگا نہ ہونا... پہلى آٹھ شرطیں تو ولى كے صحیح ہونے میں ہیں اور آخرى تین شرطیں صحیح ہونے كے لیے شرط نہیں ، لیكن اُن كے نہ ہونے كى صورت میں اسے معزول كرنا واجب ہو جائےگا۔ اس لیے بالاتفاق كافر كى ولایت صحیح نہیں ، اور نہ ہى مجنون شخص كى ۔ [1] فقہاے شریعت کونسل امریكہ كى دوسرى كانفرنس جو كوپن ہیگن، ڈنمارك میں رابطہ عالم اسلامی كے تحت 4تا 7 جمادى الاولیٰ 1425 ھ بمطابق22 تا 25 جون 2004ء میں منعقد ہوئى،اس كا اختتامى بیان یہ تھا: ’’جب كسى ایسے ملك میں جہاں اسلامى قوانین اور شرعى عدالتیں نہ ہوں اور كسى حق كو حاصل كرنا متعین ہو جائے یا پھر اپنے سے ظلم روكنا مقصود ہو تو غیر شرعى عدالت سے رجوع كرنے كى اجازت ہے۔ لیكن اس كے لیے شرط یہ ہے كہ شرعى علماے كرام سے اس سلسلہ میں رجوع ضرور كیا
[1] دیكھیں تبصرۃ الحكام :1/26،اورالموسوعة الفقهية: 33/295