کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 26
ساتھ تم نے شرم گاہیں حلال كى ہیں ۔‘‘[1] اور ایك حدیث میں رسول كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: ’’ مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہیں ۔‘‘[2] یہاں واضح رہنا چاہئے كہ عورت كے لیے محرم كے بغیر سفر كرنا حلال نہیں ۔واللہ اعلم كیا غیرمسلم جج یا یورپى عدالت كى طلاق واقع ہوگى؟ سوال: میں اپنے خاوند كے ساتھ ایك یورپى ملك میں رہائش پذیر ہوں میرا خاوند نشئی تھا اور چھ برس كى ازدواجى زندگى مشكلات اور لڑائى جھگڑے پر مشتمل رہى جو ناقابل برداشت تھى، چنانچہ میں نے طلاق كا مطالبہ كیا، لیكن خاوند نے طلاق دینے سے انكار كر دیا۔ لہٰذا مجھے عدالت كا سہارا لینا پڑا اور بالفعل طلاق ہو گئى۔ اس معاملہ كو كئى برس بیت چكے ہیں ، اب میں یہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آیا یہ طلاق صحیح تھى یا نہیں ؟ اور اگر میں نئے سرے سے اُس كى بیوى بن كر واپس خاوند كے پاس جانا چاہوں تو كیا طریقہ ہے ؟ جواب: اوّل:اگر خاوند تباہى والے كام مثلاً شراب نوشى یا نشہ كرنے پر اصرار كرے تو بیوى كے لیے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دینے سے انكار كر دے تو پھر شرعى عدالت میں قاضى كے سامنے معاملہ پیش كیا جائے تا كہ وہ خاوند پر طلاق لازم كرے، یا پھر خاوندکے طلاق دینے سےانكار كرنے كى صورت میں شرعى قاضى نکاح فسخ کر دے۔ اور اگر شرعى عدالت اور شرعى قاضى نہ ہو تو پھر اس معاملہ كو اپنے علاقے میں موجود اسلامى مركز یا اسلامك سینٹر میں اُٹھانا چاہیے تا كہ وہ خاوند كو طلاق دینے پر راضى كریں ، یا پھر اُسے خلع كى دعوت دیں ، اور اس شرعى طلاق كے بعد ضرورت كى بنا پر اسے غیر شرعى عدالت سے تصدیق كرانا جائز ہے۔
[1] صحیح بخارى: 2572 ؛صحیح مسلم : 1418 [2] سنن ابو داود: 3594... علامہ البانى رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابو داود میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔