کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 25
اور اس لیے بھى كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے : ’’ ان عورتوں كا تم پر نان و نفقہ اور ان كا لباس معروف طریقہ كے مطابق واجب ہے۔‘‘[1] اور اس لیے بھى كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدہ ہند رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا: ’’ تم اتنا مال لے لیا كرو جو تمہیں اور تمہارى اولاد كو معروف طریقہ سے كافى ہو ۔‘‘[2] اس كے علاوہ اس اُصول یعنى خاوند كا اپنى بیوى پر خرچ كرنے كےواجب ہونے كے بہت سارے شرعی دلائل ہیں ، جو بیوى كے كھانے پینے اور لباس و رہائش وغیرہ كو شامل ہیں ، اور اس كے ساتھ بیوى كا علاج معالجہ اور بدن كى قوت بحال كرنے كے اخراجات بھى خاوند كے ذمہ ہیں ۔لیكن یہ نان و نفقہ ’معروف‘ یعنى بہتر طریقہ كے ساتھ مشروط كیا گیا ہے، اور یہ خاوند كى حالت كے مطابق ہوگا، اگر وہ تنگ دست ہے تو اس كے مطابق اور اگر مالدار ہے تو اس كے مطابق خرچ كرے گا۔ البتہ بیوى كى ملازمت پر جانے كے اخراجات اس كے خاوند پر واجب نہیں ؛ تاہم دو صورتوں میں واجب ہوگا : پہلى صورت:اگر خاوند نے بیوى كو یہ ملازمت كرنے كا حكم دیا ہو تو اس صورت میں اس كے آنے جانے وغیرہ كے اخراجات خاوند برداشت كرے گا۔ دوسرى صورت : عقدِنكاح میں بیوى نے یہ شرط ركھى ہو كہ ملازمت كے اخراجات خاوند برداشت كرے گا؛ تو اس شرط كو پورا كرنا ضرورى ہے؛ كیونكہ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١۬ ﴾ [3] ’’اے ایمان والو اپنے معاہدے پورا كیا كرو۔‘‘ اور اس لیے بھى كہ نبى كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے: ’’جن شروط كو سب سے زیادہ پورا كرنے كا تمہیں حق ہے، وہ شرطیں ہیں جن كے
[1] صحیح مسلم: 1218 [2] صحیح بخارى: 5364 [3] سورۃ المآئدۃ : 1