کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 23
اجازت دى ہے كہ اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو یا پھر اس كے پاس اپنى ضروریات پورى كرنے كے لیے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھى اپنى ضروریات پورى نہ كر سكتى ہو تو كہیں اور عدت گزار سكتى ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں : ’’بیوہ كے لیے اپنے گھر میں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دینے والوں میں عمر اور عثمان شامل ہیں ، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور امّ سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھى مروى ہے، اور امام مالك ،امام ثورى، امام اوزاعى ،امام ابوحنیفہ، امام شافعى اور امام اسحٰق رحمۃ اللہ علیہم كا بھى یہى قول ہے۔‘‘ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ كہتے ہیں : ’’حجاز، شام اور عراق كے فقہاے كرام كى جماعت كا بھى یہى قول ہے ۔‘‘ اس كے بعد لكھتے ہیں : ’’چنانچہ اگر بیوہ كو گھر منہدم ہونے یا غرق ہونے یا دشمن وغیرہ كا خطرہ ہوتو اس كے لیے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كیونكہ یہ عذر كى حالت ہے۔اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہیں بھى رہنے كا حق حاصل ہے ۔‘‘ (مختصرًا) سعودی عرب کی مستقل فتوى ٰ[1]كونسل كے علماے كرام سے درج ذیل سوال كیا گیا کہ ایك عورت كا خاوند فوت ہو گیا ہے اور جس علاقے میں اس كا خاوند فوت ہوا ہے، وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہیں ، كیا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟ كونسل كے علماے كرام كا جواب تھا: ’’ اگر واقعتاً ایسا ہے كہ جس شہر اور علاقے میں خاوند فوت ہوا ہے، وہاں اس بیوہ كى ضروریات پورى كرنے والا كوئى نہیں ، اور وہ خود بھى اپنى ضروریات پورى نہیں كر سكتى تو اس كے لیے وہاں سے كسى دوسرے علاقے میں جہاں وہ محفوظ ہو اور اس كى
[1] المغنى : 8/127