کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 21
کسی بھی حدیث میں یہ شرطیں پائے جانے سے وہ قابل قبول ہوتی ہے او ریہ شرطیں رواۃِ حدیث سے وہم اور غلطی نیز جھوٹ کے امکان کو دور کرنےکےلیے ہی لگائی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود بھی اگر بعض لوگ یہ سمجھتے بلکہ واویلا کرتے ہیں کہ خبر واحد ظنّی ہوتی ہے اور جو چیز ظن ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس بات کاامکان پایا جاتا ہے کہ وہ 1. غلط ہوسکتی ہے۔ 2. وہ جھوٹ اور افترا ہوسکتی ہے اور 3. کسی راوی کا وہم ہوسکتی ہے۔ تو ایسے توہم پرست لوگوں کے متعلق امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ جوزیہ فرماتے ہیں : من قال إن خبر الواحد یفید الظن نقول له: یفید الظن هذا بالنسبة لك و بالنسبة لعلمك ولکن بالنسبة للمتخصصین من أهل العلم والحدیث یفید عندهم العلم لأن عندهم خبرة بالأحادیث و دراسة الأسانید و معرفة حال الرجال إلىٰ آخر ذلك ... فنقول یفید الظن بالنسبة لك أنت وأمثالك ممن لم یعرفوا هٰذا العلم و هذا الفن[1] ’’ جو شخص یہ کہے کہ خبرواحد تو ظنی ہے (اور ظن کا کوئی اعتبارنہیں ) تو ہم اسے کہتے ہیں : ہاں واقعی خبر واحد تیرے جیسےناقص العلم کو ظن کا فائدہ دیتی ہے، لیکن محدثین کرام جو علم حدیث کے ماہر اور متخصص ہیں ، اُنہیں خبر واحد علم و یقین کا فائدہ دیتی ہے، کیونکہ انہیں احادیث و اسانید کا ماہرانہ تجربہ حاصل ہوتا ہے اور وہ رواۃِ حدیث کےکوائف اور دیگر معلومات سے واقف ہوتے ہیں ۔ ہم پھر منکرین اخبارِ آحاد سے کہیں گے کہ خبر واحد آپ جیسوں کےلیے ظن کا ہی فائدہ دیتی ہے جو فن حدیث سےنابلد اور علم حدیث سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔‘‘
[1] حجية الآحاد في العقیدة : 30 ؛ مختصر الصواعق :2/359، 432