کتاب: محدث شمارہ 358 - صفحہ 20
3. وہ کسی کا وہم ہوسکتی ہے۔ تو اس سے جو نتیجہ نکلتا وہ ظاہر ہے۔ اس سے آگے مائے مدین پر بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت شعیب علیہ السلام کی دو لڑکیوں میں سے ایک کےکہنے پر،کہ میرا باپ آپ کو بلاتا ہے۔چل پڑے اور حضرت شعیب علیہ السلام کے داماد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں منکرین اخبارِ آحاد کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جاسکتا ہے کہ یہ تو قرآن ہے اور قرآنِ کریم کو تواتر حاصل ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کو تواتر تو تب حاصل ہوا ہے جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاحبِ قرآن( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کوایک آدمی کے خبر دینے کا واقعہ اس سے بہت پہلے کا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اور پہلے انبیا اور رسولوں کے ہاں بھی خبر واحد معتبر اور قابل حجت رہی ہے۔ صرف منکرین حدیث اس کی حجیت سے انکاری ہیں !! علماے حدیث نےسورۃ الحجرات کی حسبِ ذیل آیت سے بھی عادل ثقہ کی خبر کے مقبول ہونے پر استدلال کیا ہے۔اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْۤا ﴾ [1] اور اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فاسق شخص کی خبر کو قبول کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینے کا حکم دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایک عادل او رثقہ شخص کی خبر کو قبول کرنے کے لیے تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، ورنہ عادل اور فاسق کی خبر کو قبول کرنے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔علماے حدیث نے صحیح حدیث کے قابل قبول ہونے کےلیے جو شرطیں عائد کی ہیں ، ان سےان خطرات کا ازالہ ہوجاتا ہے جن سے منکرین حدیث ڈرتے ہیں اور اُنہوں نے صحیح حدیث کی تعریف ہی یہ کی ہے : ما اتصل سنده بنقل العدل الضابط عن مثله إلىٰ منتهاه ولا یکون شاذًا ولا معللًا
[1] سورۃ الحجرات :6